Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں جھگڑا کیا ؟

***وسیم عباسی ***
پاکستان کی حکومتی پارٹی کے دو بڑے رہنماوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات ان دنوں خبروں میں ہیں اور  اسے حکمران جماعت کے اندر پائی جانے والی مبینہ دھڑے بازی بھی کہا جا رہا ہے۔
پیر کو حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سینیئر وائس چیئرمین اور  وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں اپنے اپنی جماعت کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاسوں میں شرکت پر کھلی تنقیدکی۔ 
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اثاثے چھپانے پر نااہل قرار پانے والے جہانگیر ترین کی سرکاری اجلاسوں میں شرکت سے اپوزیشن کو بولنے کا موقع ملتا ہے۔ 
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں جہانگیر ترین نے کابینہ اجلاس میں شرکت کرکے قومی زرعی پالیسی کے حوالے سے اپنی ماہرانہ رائے دی تھی۔
دوسری طرف جہانگیر ترین نے بھی ٹویٹر پر آ کر واضح کیا کہ وہ شاہ محمود قریشی کے بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ 
انہوں نے  کہا: "صرف ایک ہی شخص ہے جسے اپنا لیڈر تصور کرتا ہوں اور اْسی کو جوابدہ ہوں، اس کا نام عمران خان ہے۔ اپنی آخری سانس تک عمران خان کے ہر مشکل اور اچھے وقت کے ساتھ کھڑا ہوں، دوسرے اس حوالے سے کیا کہتے ہیں اس سے مجھے کوئی غرض نہیں۔"۔
اگر سوشل میڈیا پر بیانات کا جائزہ لیا جائے تو  ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات کھل کر سامنے آنے کے بعد کابینہ کے ارکان میں بھی دھڑے بازی نظر آ رہی ہے۔ 
وزیراطلاعات فواد چوہدری نے  بھی پیرکو ٹویٹرپر پارٹی کے لیے جہانگیر ترین کی خدمات کو سراہا  اور کہا کہ آج تحریک انصاف اگر حکومت میں ہے تو اس میں ایک بڑا کردار جہانگیر ترین کا ہے۔کابینہ اجلاس میں ان کی شرکت وزیراعظم کی خواہش پر ہوتی ہے۔ اکابرین کو وزیراعظم کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔
اختلافات کی تاریخ
پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات نئے نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی میں دونوں رہنماوں کی مثال ایک میان میں دو تلواروں کی سی ہے۔  شاہ محمود قریشی پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں عشروں تک سیاست کے بعد نومبر 2011 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ جبکہ جہانگیر ترین ان سے ایک ماہ بعد دسمبر 2011میں پارٹی میں آئے۔ اس قبل وہ بھی مسلم لیگ ق کے رہنما کے طور پر وفاقی وزیر صنعت وپیداوار رہ چکے تھے۔ 
دونوں رہنماؤں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ان کے درمیان اختلافات نئے نہیں۔ پارٹی کے اپنے انتخابات اور  2018 کے عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر بھی دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ 
ایک موقع پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی تسلیم کیا تھا کہ پارٹی میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی دو گروپ بن چکے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاہم ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان نے امید ظاہر کی تھی کہ حکومت میں آنے اور کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کے بعد  ان دونوں رہنماوں کے اختلافات کم ہو جائیں گے۔
دونوں رہنما پنجاب کی وزارت اعلی کے امیدوار تھے مگر جہانگیر ترین دسمبر 2017میں سپریم کورٹ سے 
نااہل ہونے کے بعد اس دوڑ سے باہر ہو گئے تاہم انہوں نے 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے دوران آزاد ارکان کی بڑی تعداد کو پی ٹی آئی میں شمولیت پر راضی کیا  اور کئی ارکان کو ذاتی جہاز میں بٹھا کر بنی گالہ لائے جہاں انہوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کے ہاتھوں تحریک انصاف کی چادر اوڑھی۔ 
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اسحق خاکوانی کے مطابق جہانگیر ترین کی ان ہی کوششوں کی وجہ سے پنجاب اور مرکز میں پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔
حالیہ تنازع
حالیہ تنازع کابینہ کے گذشتہ اجلاس میں جہانگیر ترین کی بطورزرعی ماہر شمولیت پرپیدا ہوا۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں جہانگیر ترین نے دعوی کیا کہ کابینہ اجلاس میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر شرکت کی کیوں کہ اس سے قبل وزیر خرانہ اسد عمر کابینہ کو بتا چکے تھے کہ زرعی امور کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے۔
عمران خان کے جانشین کی لڑائی
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں رہنماؤں میں اختلاف شاید کبھی بھی ختم نہ ہو سکے۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے بتایا کہ ترین اور قریشی میں جھگڑا یہ ہے کہ عمران خان کے بعد پارٹی میں دوسرا بڑا قائد کون ہے؟ اس کے علاوہ دونوں یہ بھی طے کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی قیادت کون کرے گا ؟
مظہر عباس کے مطابق شاہ محمود قریشی جاگیردار بھی ہیں اور پیر بھی اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان بھی اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ عمران کے نمبر ٹو وہ قرار پائیں۔ 
 دوسری طرف جہانگیر ترین ایک شہری سٹائل کے صنعت کار اور زمیندار ہیں اور پارٹی کے لئے ان کا دل بھی کافی کھلا ہے وہ پارٹی اجلاسوں کے لیے کھل کر خرچ کرتے ہیں اور اپنا ذاتی جہازبھی عمران خان کو مختلف پارٹی ضروریات کے لئے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے عمران خان ذاتی طور پر جہانگیر ترین کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تاہم انہیں شاہ محمود قریشی کی سیاسی حیثیت کا بھی اندازہ ہے اس لیے وہ کبھی کھل کر کسی ایک رہنما کی حمایت نہیں کریں گے۔‘ 
مظہر عباس کے مطابق موجودہ لفظی جنگ میں بظاہر شاہ محمود قریشی کو اخلاقی برتری حاصل ہے کیوں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں تا ہم زیادہ تر پارٹی رہنما کھل کر شاہ محمود کی حمایت اور جہانگیر ترین کی مخالفت اس  لئے بھی نہیں کر رہے کہ سب کو اندازہ ہے کہ عمران خان جہانگیر ترین کو پسند کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:شاہ محمود اور جہانگیر ترین پھر آمنے سامنے ،لفظی جنگ

شیئر: