Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: انتخابی مہم میں مودی کی ' مارکیٹنگ مشین'

انڈیا میں رائے عامہ کے جائزے  تواتر سے  نریندر مودی کو ملک کا سب سے مقبول سیاستدان قرار دے رہے ہیں ۔  حکمران جماعت  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) رواں ماہ سے شروع ہونے والے عام انتخابات میں مودی کی اس مقبولیت کو ووٹ میں تبدیل کرنے  کے لیے  ابلاغ  کے  تمام جدید ترین وسائل  سے لے کر انتہائی روایتی   اور پرانے طریقے بھی استعمال کر رہی ہے۔
اگرمودی دوبارہ انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں  تو  یہ جیت  بی جے پی  کی اس مارکیٹنگ مشین کے مرہون منت ہوگی جسے   'برانڈ مودی'  کو انڈیا  میں گھر گھر تک  پہنچانے   کے لیے حکمران  جماعت نے تخلیق  کی ہے۔  
انڈیا کے  عام انتخابات رواں سال 11 اپریل سے شروع  ہوں گے جو 19 مئی تک جاری رہیں گے۔ بی جے پی کے انتخابات جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔بی جے پی نے حال ہی میں نریندر مودی  سے منسوب ’نمو ٹی وی ‘ کے نام سے موبائل ایپ بنائی ہے جسے   بی جے پی کے مطابق دس کروڑ  سے زائد لوگوں نے ڈاون لوڈ  کیا  ہیں۔
سماجی رابطوں کی سائٹ ٹوئٹر پر نریندر مودی اور انکی جماعت ’بی جے پی‘ کے مجموعی   فالوورز پانچ کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ ہیں، جو حزب اختلاف کی جماعت کانگرس اور اس کے صدر راہل گاندھی کے کل فالوورز سے چار گنا زیادہ ہیں۔اگر دنیا بھر کے سیاسی لیڈروں کے ٹویٹرفالوورز کا موازنہ کیا جائے، تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق صدر باراک اوباما کے بعد نریندر مودی کے سب سے زیادہ فالوورز ہیں۔ہندو قوم پرست جماعت ’بی جے پی‘ کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت کے اراکین کی تعداد دنیا بھر میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اراکین سے زیادہ ہے۔ 
رائے عامہ کا جائزہ   لینے والے  اداروں کا خیال ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت بھی نریندر مودی کی ہی ہوگی۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ مودی  کو مکمل اکثریت مل پائے گی یا پھر انہیں اتحادیوں کی ضرورت ہوگی۔ 
بی جے پی کے مطابق جاری انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی روزانہ ڈھائی لاکھ لوگوں سے براہ راست جلسوں کے ذریعے خطاب کرتے ہیں جو ملک بھر میں متعدد ٹی وی چینلزاور مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی نشر کیے جاتے ہیں۔
بی جے پی کے شعبہ امور خارجہ کے سربراہ وجے نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نریندر مودی روزانہ تین سے چار جلسوں سے خطاب کرتے ہیں اور ہر جلسہ تین سے چار حلقوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ اتوار کونریندر مودی کا نشر ہونے والا پروگرام ایک کروڑ لوگوں نے دیکھا تھا جس میں انہوں نے  سیکیورٹی گارڈز سے خطاب کیا۔10  مارچ کو عام انتخابات کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان ہونے سے پہلے ہی نریندر مودی نے 16 ریاستوں کا دورہ کیا ۔ اس دوران انہوں نے مختلف عوامی منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ انہوں نے ان تقریبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو اپنی حکومت کی کارکردگی سے بھی آگاہ کیا۔
حزب مخالف کی سب سے بڑی  جماعت کانگرس پارٹی  کا الزام  ہے کہ  مودی اور ان کی جماعت طاقت اور پیسے کے زور پر ووٹرز پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ جنوری میں کانگرس نے شکایت کی تھی کہ بی جے پی نے تمام دستیاب طیارے پہلے سے بک کرا لیے  ہیں جس کی وجہ سے ان کے پارٹی لیڈروں کو ہیلی کاپٹر کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان گوپل کرشنا کا کہنا ہے ان کی جماعت اور کانگرس کی انتخابی مہم میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ’ ہماری جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ اورعوام تک پیغام رسانی کا نظام کانگرس سے کہیں زیادہ آگے ہے۔‘ 
پچھلے پانچ برسوں میں بی جے پی کی اپنی آمدنی اور پارٹی ممبرشپ میں بلا شبہ بہت اضافہ ہوا ہے۔نئی دلی میں واقع آرگنائزیشن ’ایسوسی ایشن فار ڈیماکریٹک ریفارمز‘ کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2017-18 میں بی جے پی کی کل آمدنی بشمول عطیات 10.27 کروڑ انڈین روپے ( دس لاکھ ڈالر سے زیادہ )تھی جبکہ حزب اختلاف کی جماعت ’کانگرس‘ کی آمدنی 1.9 کروڑ انڈین روپے تھی۔ 
 
 

شیئر: