Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’مودی بھکت الجھن کا شکار،عمران خان کی تعریف کی جائے یا نہیں‘‘

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے انڈیا عام انتخابات پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انڈیا میں دائیں بازو کی جماعت بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تو شاید مسئلہ کشمیر حل ہوجائے۔
 منگل کو غیر ملکی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا وزیراعظم نریند مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جیتنے سے امن مذاکرات کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔
 
انڈیا کے عام انتخابات پرعمران خان کے اس بیان کے آنے کی دیر تھی کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین کا ردعمل آنا شروع ہوا جس میں زیادہ دلچسپی انڈین شہریوں نے لی اور ٹوئٹر پر اپنا اظہار خیال کیا۔ ردعمل دینے والوں میں سیاست دان اور صحافی بھی شامل ہیں۔ 
 
عمران خان کا نام اب بھی انڈیا میں ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ 
جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے عمران خان کے بیان پر اپنے رد عمل میں حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کے بیان پر بھکت سخت سوچ بچار اور الجھن کا شکار ہوں گے کہ عمران خان کی  تعریف کی جائے یا نہیں۔‘
 
اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی عہدیدار یا نامور رکن کا عمران خان کے مودی کے متعلق بیان پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما عمرعبداللہ نے ٹویٹر پر کہا کہ ’عمران خان نے مودی کے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کی توثیق کی ہے جبکہ نریندرمودی عوام کو بتاتے رہے ہیں کہ پاکستان اوراس کے خیرخواہ چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت ’بی جے پی‘ انتخابات ہار جائے۔‘
 عمرعبداللہ نریندر مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کشمیر میں موجودہ صورتحال کا ذمہ دار مودی کو ٹھہراتے ہیں۔ 
پاکستانی صحافی عادل شاہزیب نے عمران خان کے بیان کو ’دلیرانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے مابین صرف ایک جھگڑا ہے اور وہ ہے ’کشمیر‘۔ وزیراعظم عمران خان نے انڈین انتخابات کا پہلا مرحلہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے دلیرانہ بیان دیا ہے۔‘

کرتی کوشک نامی انڈین شہری نے انڈین میڈیا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان نے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی اسی انداز میں توثیق کی ہوتی تو انتہائی سخت غصے کا اظہار کیا جاتا۔ انہوں نے کچھ صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے (منہ سے) غصے میں جھاگ نکل رہی ہوتی۔  
پاکستانی صارف اشعر جاوید نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے بیان کو دو طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ’عمران خان نے صرف چھ مہینوں میں مودی پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ (وہ) ہندو پرست بی جے پی کو مزید پانچ سالوں کے لیے منتخب کرانا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں اپنی ’سافٹ پاور‘ کو پھر سے زندہ کرنے کا موقع ملے گا۔‘ اور دوسرا یہ کہ ’بی جے پی کی سرعام توثیق کر کے وہ چاہتے ہیں کہ انڈین (شہری) کانگریس کو ووٹ ڈالیں۔‘ 
ایک اور انڈین صارف سنجھے جھا نے مودی کو ٹیگ کرکے ان کی قوم پرست پالسیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ درحقیقت ’عمران خان آپ سے پیار کرتے ہیں اور آپ کو (دوبارہ منتخب کرانا) چاہتے ہیں۔  ہم تو ہمیشہ سے جانتے تھے کہ آپ کی ہائپر قوم پرستی محض ایک ڈرامہ ہے۔‘
 
انڈین صارف بھرت جوشی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ کہ عمران خان مودی کو جنگ کا حامی نہیں بلکہ امن پسند سمجھتے ہیں۔ ’پچھلے ستر سالوں میں تو انڈیا، پاکستان کے ساتھ امن نہ لا سکا۔ (لیکن) ہم ایک پر امن مستقبل کی امید کرتے ہیں۔‘ 
یاد رہے کہ انڈیا میں عام انتخابات رواں ہفتے جمعرات سے شروع ہو رہے ہیں جو 19 مئی کو اختتام پذیر ہوں گے۔
 
 

شیئر: