Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وکی لیکس کے شریک بانی جولین اسانج گرفتار

برطانوی حکام کے مطابق پولیس نے 2010 ءمیں امریکی فوج کی خفیہ معلومات افشا ءکرنے والے وکی لیکس کے شریک بانی جولین اسانج کو لندن سے گرفتار کر لیا ہے۔
برطانیہ کے سیکریٹری داخلہ نے بھی اپنے ٹویٹ میں اسانج کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ میں ایکواڈور کی جانب سے تعاون پر ان کا شکر گزار ہوں۔

اسانج ریپ کے الزام میں سویڈن حوالگی اور گرفتاری سے بچنے کے لئے 2012 ء سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم تھے۔
اس گرفتاری پر ایکواڈور کے صدر لینن مورینو نے کہا ہے کہ ا±ن کی جانب سے اسانج کے ساتھ کئے گئے سیاسی پناہ کے معاہدے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے معاہد ہ ختم کرنے کی وجہ اسانج کی جانب سے مبینہ طور پر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی بتایا ہے۔
دوسری جانب وکی لیکس نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ایکواڈور نے اسانج کی سیاسی پناہ کو ختم کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

گرفتاری کا پسِ منظر کیا ہے؟ 
خیال رہے کہ رواں سال مارچ کے آخری ہفتے میں ایکواڈور کی حکومت نے اسانج کو اپنے سفارت خانے سے بے دخل کرنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ 
وکی لیکس نے 25 مارچ کے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’ایکواڈور حکومت کے اعلیٰ سطح کے ذرائع نے وکی لیکس کو بتایا کہ جولین اسانج کو ’آئی این اے پیپرز آف شور اسکینڈل‘ کا بہانہ بنا کر کچھ گھنٹوں یا دنوں کے اندر اندر سفارت خانے سے بے دخل کر دیا جائے گا اور برطانیہ کے ساتھ ان کی گرفتاری کے حوالے سے معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ ‘
آئی این اے پیپرز کیا ہیں؟
آئی این اے پیپرز ان دستاویزات کا پلندہ ہیں جو رواں سال فروری میں منظر عام پر آئیں۔ ان میں ایکواڈور کے صدر مورینو کے کرپشن میں ملوث ہونے کو ظاہر کیا گیا تھا۔ ان دستاویزات میں مورینو کے بھائی پر بھی کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔
26 مارچ کو وکی لیکس کے ایک ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ایکواڈور صدر مورینو کے خلاف آئی این اے پیپرز لیک میں سامنے آنے والے کرپشن کے الزامات پر تحقیقات کر رہی ہے۔
ٹویٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’مورینو کے خلاف ان کے آئی فون (واٹس ایپ ٹیلی گرام) اور جی میل سے مبینہ طور پر لیک ہونے والے مواد کے شائع ہونے کے بعد کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘

وکی لیکس کا یہ پیغام مورینو کے اس بیان کے2 دن بعد سامنے آیا تھا جس میں اسانج پر اپنی سیاسی پناہ کے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
ایکواڈور کے مختلف ریڈیو اسٹیشنز کو دئیے گئے انٹرویوز میں مورینو نے کہا تھا کہ ’اسانج نے کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو ہم نے ان سے اور ان کی قانونی ٹیم کے ساتھ کیا تھا۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسانج کو بولنے کی آزادی نہیں، اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے لیکن معاہدے کے مطابق وہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ کسی کے اکاونٹس ہیک کرنا اور ذاتی فون کالز ریکارڈ کرنا تو دور کی بات ہے۔ ‘
ایکواڈور نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ ’وکی لیکس حالیہ دنوں میں مورینو کی ذاتی تصاویر شیئر کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ ‘
اس وقت اسانج نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر گرفتاری کے بعد انہیں سویڈن بھیج دیا گیا تو وہاں سے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا جہاں ان پر افغانستان اور عراق میں جنگوں سے متعلق حکومتی خفیہ دستاویزات افشا ءکرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
اسانج نے اکتوبر 2018 ءمیں ایکواڈور حکومت کے خلاف باہر کی دنیا تک رسائی محدود کرتے ہوئے ’بنیادی حقوق‘ کی پامالی پر مقدمہ دائر کیا تھا جبکہ ایکواڈور کی حکومت نے ان پر ایکواڈور کی خارجہ پالیسیوں میں مداخلت نہ کرنے کے ’تحریری وعدے‘ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔
 

شیئر: