Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے تعلیمی سال پر والدین کیوں پریشان؟

٭٭٭ توصیف رضی ملک٭٭٭
 
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو گیا ہے لیکن کراچی کے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو ایک نئی مشکل کا سامنا ہیں۔
ایک طرف نجی سکولز کی انتظامیہ نے نئے تعلیمی سال کے لیے نصاب کی کتابیں اور کاپیوں کے واﺅچرز والدین کو بھجوائے ہیں تو دوسری جانب سندھ کے محکمہ تعلیم نے سکولزپر کتابیں اور کاپیاں فروخت کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
نجی سکولوں کے اندر یا ساتھ قائم بک سینٹرز کے بارے میں والدین تواتر سے شکایات کرتے ہیں کہ وہ نصابی کتب، کاپیاں، یونیفارم اور دیگر اشیاء مارکیٹ کے مقابلے میں بہت زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
 سکولز انتظامیہ والدین کو پابند کرتی ہیں کہ وہ بچوں کی کتابیں اور دیگر سٹیشنری آئٹم ان بک سینٹرز سے ہی خریدیں۔
ان شکایات کے پیش نظر اس سال سندھ کے محکمہ تعلیم نے نجی سکولز پر کتابیں اور کاپیاں فروخت کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ والدین نجی سکولوں کی دکانوں سے کتابیں اور کاپیاں نہ خریدیں اور اس کی شکایت کریں۔
محکمہ تعلیم سندھ کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نگرانی کے ڈائریکٹوریٹ کی رجسٹرار رافعہ احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کا اقدام 'مثالی' ہے جو عوام کے فلاح اور ان کی شکایات کو مد نظر رکھ کراٹھایا گیا ہے۔
حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پرائیویٹ سکولز کاپیاں اور کتابیں مارکیٹ ریٹ سے تین سے چار گنا زیادہ نرخ پرفروخت کرتے ہیں۔ اس گراں فروشی کی روک تھام کے لیے حکومت نے سکولوں کی جانب سے کاپیاں، کتابیں، رجسڑز، یونیفارم اور سٹیشنری کی فروخت پہ مکمل پابندی عائد کردی۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹ کی رجسٹرار رافعہ احمد کی جانب سے جاری کردہ احکامات میں محکمہ کے تمام ذیلی و متعلقہ اداروں کو ان پابندی پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں محکمہ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کی جانب سے پرائیویٹ سکولز انتظامیہ کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ والدین کو کتابوں اور کاپیوں کی فہرست فراہم کریں تا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں سے چاہیں خریداری کر سکیں۔
اس اقدام اور احکامات کے حوالے سے والدین میں خاصا ابہام موجود ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے 3 سکول جانے والے بچوں کی والدہ بشری قمر نے بتایا کہ انہیں سکول کی جانب سے کتابیں کاپیاں خریدنے کا چالان موصول ہوا ہے جو 10 مئی تک جمع کروانا ہے۔
ایک اور ملازمت پیشہ خاتون مریم جن کے بچے ایک پسماندہ علاقے میں قائم سکول میں پڑھتے ہیں، نے شکوہ کیا کہ سکول نے ساڑھے تین ہزار روپے کا واﺅچر بھیج دیا ہے جو ان کی بساط سے زیادہ ہے، تاہم وہ سکول سے ہی خریداری کرنے پر مجبور ہیں۔
اس حوالے سے سندھ پرائیویٹ سکولز ایسوسیشن کے چیئرمین حیدر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سکولوں کی جانب سے یہ سہولت والدین کی آسانی کے لیے مہیا کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکول خرید و فروخت میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ایسے دکانداروں کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں سے اچھی کوالٹی کی چیزیں مل سکتی ہیں۔
حیدر علی نے مزید بتایا کہ محکمہ تعلیم کے احکامات بے جا ہیں اس حوالے سے ان سے مذاکرات کئے جائیں گے۔ قیمتوں میں مبینہ اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کتابوں کی قیمت ان پہ لکھی ہوتی ہے، جتنے کی کتاب چھپ کے آتی ہے اتنے کی بیچی جاتی ہے اس میں گراں فروشی ممکن نہیں۔ کاپیوں کی قیمتوں میں فرق کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں عموما غیر معیاری کاپیاں سستے داموں مل جاتی ہیں لیکن ان کا کاغذ بھی خراب ہوتا ہے۔
یونیورسٹی پروفیسر سعدیہ محمود، جن کے بچے شہر کے اعلی سکول میں زیر تعلیم ہیں، کا کہنا ہے کہ تمام کاپی کتابیں ایک جگہ مہیا ہونے سے آسانی تو ہوتی ہے اور وہ بازار جا کر ایک ایک کتاب ڈھونڈنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ تاہم گراں فروشی کے حوالے سے ان کا موقف بھی یہی تھا کہ سکول مونوگرام والی کاپیاں اور کتابیں مارکیٹ نرخ کے مقابلے میں مہنگی ہی ہوتی ہیں۔
جبکہ بشری اور مریم نے کہا کہ وہ محکمہ تعلیم کے احکامات سے خوش ہیں اور اس کے تناظر میں سکول انتظامیہ سے بات کریں گے تا کہ واﺅچر واپس ہو سکے۔

شیئر: