Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی ایم اب کیوں احتجاج کر رہی ہے؟

رابعہ اکرم خان
 گذشتہ برس سابق قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد حکومتی اقدامات اور اصلاحات کا عمل شروع ہے، سابق قبائلی ایجنسیوں کو اضلاع کی حیثیت دی گئی، پولیس سٹیشن قائم ہوئے، عدالتی نظام کا دائرہ کار بڑھایا گیا، اور پولیٹیکل ایجنٹ کی جگہ ضلعی انتظامی افسر نے لی جس سے عدلیہ اور انتظامیہ الگ ہوئے۔ ان اصلاحات کے سامنے آنے اور حکومتی اقدامات کرنے کے بعد سابق قبائلی ضلعو ں میں زندگی بھی معمول پر آنا شروع ہوئی۔
تاہم ان حکومتی اقدامات کے باوجود  پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ ایک دفعہ پھر متحرک نظرآرہی ہے  اور گذشتہ دنوں شمالی وزیرستان کے میران شاہ میں جلسہ کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جبکہ حکومت اور انتظامیہ کا موقف ہے کہ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ 
  • اب اس تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟
پاکستان کی حکومت سے اپنے مطالبات کے بارے میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مطالبات وہی ہیں جو پہلے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’چیک پوسٹوں کے مسئلے پر کام ہوا ہے اور بارودی سرنگوں پر بھی کام ہوا  لیکن یہ مسئلہ اب بھی موجود ہے، اسی طرح راؤ انوار کیس حل نہیں ہوا، ماورائے عدالت قتل بہت زیادہ ہوئے ہیں ہم نے اصل حقائق معلوم کرنے کے لیے ’ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن‘ بنانے کا مطالبہ کیا ہے، ہمارے مطالبات میں نامعلوم افراد کو معلوم کرنا،اپنے وسائل پر اختیار، سکولوں اور کالجوں سے قبضہ ختم کرانا اور لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنا شامل ہیں۔‘
پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر بھی یہی کہتے ہیں ’ہمارے مطالبات وہی ہیں اور حکومت سے چاہ رہے ہیں کہ پشتونوں کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے۔‘
 سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس تنظیم کے ابتدائی مطالبات پانچ تھے۔
1۔ راؤ انوار کو گرفتار کیا جائے اور نقیب اللہ محسود کے خاندان کو انصاف دیا جائے۔
2۔قبائلی علاقوں میں جگہ جگہ سے بارودی سرنگیں صاف کی جائیں کیونکہ مقامی لوگوں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت فوج نے 42 ٹیمیں اس صفائی کے لیے مقرر کی تھی اور اب ان کی 65 ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔
3۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں اس میں بھی کمی آئی ہے۔
4۔لاپتہ افراد کو سامنے لایا جائے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لیا تھا۔
5۔ ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن قائم کیا جائے اور جس نے جو کچھ کیا ہے اس کمیشن کے سامنے آکے صاف بات کریں۔
یہ ان کے پانچ مطالبات تھے لیکن یہ اب بڑھ گئے ہیں جن میں ان کے گرفتار کیے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ، مقدمات ختم  کرنے اور ان کے سفر کرنے پر پابندی نا لگائی جائیں جیسے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔
رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ حکومت اور فوج بھی کہتی ہیں کہ ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن یہ طریقہ نہیں جسے یہ لوگ استعمال کر رہے ہے۔ ’پاکستان کے وزیراعظم نے بھی کہا تھاکہ مطالبات صحیح ہیں لیکن طریقہ درست نہیں اور یہ فوج کے خلاف بول رہے ہیں۔ تو مسئلے مذاکرات کے ذریعے حل ہوتے ہیں، مطالبات کے لیے ان کو اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنی چاہیے اور پر امن طریقہ اپنائیں تو ان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن ایسا کام نہ کریں جس کی وجہ سے حالات خراب ہوں جیسے کہ یہ لوگ فوج کے خلاف بولتے ہیں، تو اس سے فوج کا رویہ سخت ہوگا اور پاکستان میں فوج کا کردار اہم ہے۔‘
  • پی ٹی ایم سے حکومتی مذاکرات
گذشتہ دنوں سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین سے ملاقات کی جس میں منظور پشتین نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی سے ملاقات کے بارے میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ سینیٹ اراکین کے ساتھ تفصیل سے بات ہوئی، مسائل سے ان کو آگاہ کیا گیا اور اس پر کافی بحث بھی ہوئی۔
 ’سینیٹ کے اراکین کے ساتھ جب بات چیت شروع ہے تو میرے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میں  ایسی کوئی بات کروں تاہم مجھے لگا کہ  ان کے پاس مراعات ہیں لیکن ان کے پاس اتنا اختیار نہیں ہے، میں نے جب پوچھا کہ آپ لوگ واقعی ہمارے مسئلے حل کر سکتے ہیں؟، تو ایک سچا جواب آیا کہ نہیں، ہم کوشش کریں گے۔‘
  • ’100 فیصد مطالبات حل بھی نہیں ہوسکتے‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ دنیا ایسے ہی مطالبات پر چل رہی ہے اور مطالبات ایسے نہیں ہوتے جو پورے نہ ہوں، لیکن 100 فیصد مطالبات حل بھی نہیں ہوسکتے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’کئی مرحلوں اور مشکلات سے گزر کر لوگ اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہیں وہ اپنی زیادتی کا ازالہ چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’جن کے پاس طاقت اور اختیار ہوتا ہے مسائل وہ حل کرتے ہیں۔ اگر پی ٹی ایم کی ریاست سے مذاکرات ہوتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، ریاست کی طرف سے کوشش ہورہی ہے، لیکن اس میں کتنی پیشرفت ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘ 
  • ’مذاکرات کرنے سے انکار نہیں کیا‘
پشتون تحفظ موومنٹ سے مذکرات کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے فروری کے مہینے میں ایک کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس کی سربراہی قومی اسمبلی کے رکن منیر خان اورکزئی کر رہے ہیں۔
منیر خان اورکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ 20 رکنی کمیٹی ہے جس میں قبائلی اضلاع سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین ہیں۔ اس کمیٹی کو وزیراعظم، انٹیلی جنس ایجنسیز،خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔
مذاکرات کے حوالے سے منظور پشتین کہتے ہیں ’اگر کمیٹی وفاقی سطح پر ہو تو بہتر ہوگا۔ میں یہ بات بھی بتانا چاہوں گا کہ ہم نے کسی سے بھی مذاکرات کرنے سے انکار نہیں کیا ہے۔‘
منظور  پشتین کے مطابق محسن داوڑ اور علی وزیر آزاد امیدوار ہیں، وہ پی ٹی ایم کے امیدوار نہیں تھے، وہ پی ٹی ایم کی حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، ان کی پارلیمانی حیثیت کا پی ٹی ایم سے کوئی تعلق نہیں۔

شیئر: