Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

' قرض لے کر کفن خریدتے ہیں جو ہماری نسلیں اتارتی ہیں'

 
سورج کی تمازت آج بہت سخت ہے، آج اس مہینے کا پہلا دن ہے، جو جھلسا دینے والی گرمی کی ابتدا ہوتا ہے۔

آج یکم مئی ہے۔ آج ہی کے دن سال اٹھارہ سو چھیاسی میں شکاگو میں مزدوروں کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی تھی۔

کئی جانیں گئیں، کئی حقوق ملے۔ دنیا بھر میں آج کے دن چھٹی کا اعلان کیا گیا۔

سورج کی تمازت مگراسی طرح سخت ہے، جیسے کچی مٹی سے بنی اینٹیں، بھٹے کے اندر بھڑکنے والے آگ کے شعلوں کی گرمی میں پک کر سخت ہو رہی ہیں۔

بالکل ایسے، جیسے بھٹے کے باہر، پچپن سالہ رضیہ بی بی کی بوڑھی جلد تپتے سورج کے نیچے، یہ اینٹیں گوندھتی گوندھتی، جل کرمزید سیاہ ہو رہی ہے۔ اسکے دائیں اور بائیں دو اپاہج بچے بیٹھے ہیں، اسکا ستائیس سالہ بیٹا اور تیئس سالہ بیٹی، وہ کچھ کر نہیں سکتے لیکن ماں کو دیکھ کر ہاتھ چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج دنیابھر کےلوگ یوم مزدور کی چھٹی منا رہے ہیں، لیکن رشیدہ بی بی بھٹے سے چھٹی نہیں کر سکتی ، کیونکہ کام سے چھٹی کا مطلب ہے، معاوضے کی چھٹی، اور معاوضے کی چھٹی کا مطلب ہے، کھانے کی بجائے فاقہ۔

شیخوپورہ کے علاقےعیسی نگری جہاں بیوہ رضیہ بی بی اینٹیں بنانے کا کام کرتی ہے، در حقیقت بھٹہ نگر ہے۔ قدم قدم پرمفلوک الحالی کی تصویربھٹہ مزدور۔ یہاں کسی کو یوم مزدور کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔

رضیہ بی بی کو بھی اس کا تبھی احساس ہوتا ہے جب اس دن کے قریب ’’این جی اوز والی باجیاں آ کربتاتی ہیں کہ اپنے حق کے لیے احتجاج کرو۔

اور رضیہ کے نزدیک اس کا حق کیا ہے؟ ’’ٹھیکیدار دیہاڑی کی پوری اجرت دے، اور قرض کے نام پر روزی نہ کاٹے۔‘‘

اس بستی میں مٹی میں کھیلتے بچے جیسے ہی ذرا ہوش سنبھالتے ہیں تو اسی مٹی کو گوندھ کر اینٹیں بنانے لگتے ہیں ۔ذرا دھوپ سہنے کے لائق ہو جائیں توبھٹی میں اسی مٹی کو جلا کر اینٹیں بنانے لگتے ہیں ۔مرد اور عورتیں ایک ہی صف میں بیٹھتے ،اٹھتے بھٹہ مالکان کے لئے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔عورتوں کے لئے دور دراز تک کوئی بیت الخلا یا آرام گاہ نظر نہیں آتی۔

پندرہ سالہ مہوش شمعون بھی گزشتہ تین سال سے اپنے والدین کے ساتھ  اینٹیں بنا رہی ہے۔ مہوش نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ ان کو مزدوروں کے حقوق کے بارے میں کچھ علم نہیں، ہیں بھی یا نہیں، ہونے چاہیئں بھی یا نہیں۔

مہوش کے برابر میں ہی کام میں مصروف اسکی ہم عمر میرب بی بی بھی صرف یہ جانتی ہے کہ اسے یہ کام کرنا ہے اور وہ یہی کام کرتی رہے گی۔اگر اس کی شادی ہو گئی تو وہ یہی کام اپنے شوہر کے لئے کرے گی۔

کیونکہ بھٹوں پر کام کرنے والی عورتوں کو یہ حق بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مزدوری خود وصول کر سکیں، کیونکہ انکا مزدوروں کے رجسٹر میں کوئی اندراج نہیں ہوتا۔ ان کی جگہ ان کے مردوں کے نام لکھے ہوتے ہیں اور انکی اجرت بھی انکے مردوں کو ہی ملتی ہے۔

ان کو یہ حق دلوانے کیلیئے انسانی حقوق کے کارکن بھی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔

مزدوروں کے حقو ق کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان کے مطابق پنجاب میں تقریباً 12 ہزاراینٹوں کے بھٹے ہیں جہاں ہزاروں خاندانوں کے20لاکھ سے زائد افراد کام کرتے ہیں جن میں خواتین کی تعدادنسبتاً زیادہ ہے۔

اس کے باوجود دیہاڑی رجسٹر میں خواتین کا نام نہیں ملتا اور خاندان کے سربراہ کے طور پر صرف مرد کا نام ہی شامل کیا جاتا ہے۔

بین الااقوامی سطح پر مزدوروں کے مسلمہ حقوق کے تحت انہیں سماجی تحفظ، صحت کی سہولتیں، کام کے مطابق پوری اجرت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپا گزارنےکے لئے معاشی فوائد حاصل ہونے چاہیئں، لیکن عیسٰی نگری اوراس جیسی سینکڑوں پاکستانی بستیوں کے مزدوروں کو ان حقوق کا علم نہیں۔

سماجی کارکن رخسانہ جو مزدور خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں، ''ہم بھٹہ مزدور خواتین کے حق کی بات کیسے کرسکتے ہیں جب کہ قانون کی نظر میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ان کے انسانی حقوق نہیں ہیں کیونکہ بھٹہ کے دیہاڑی رجسٹر میں آج تک ان کا نام ہی شامل نہیں ہوسکا۔

خاندان کا سربراہ مرد ہے وہ پورے خاندان سے کام کرواتا ہے اور سب کے نام کی آمدنی بھی اسے ہی ملتی ہے۔''

دورانِ حمل،دوران زچگی ،بچے کی بیماری،اپنی بیماری یا کسی بھی ناگہانی صورت میں ان مزدور عورتوں کو نہ تو کوئی چھٹی  ملتی ہے نہ ہی معاوضہ ۔

  ایسی ہی ایک اورمزدور خاتون جن کا نام بھی رضیہ ہی ہے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ''میں اپنا بچہ پیدا ہونے کے تین دن بعد واپس کام پر آ گئی،یہاں ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے شام کو بچہ پیدا کیا اور اگلی صبح وہ اینٹیں بنا اوراٹھا رہی تھیں۔کیونکہ ہمیں مزدوری اتنی ہی ملے گا جتنا کام ہوگا۔ہم چھٹیاں نہیں کر سکتے۔‘‘

 مہوش کے والد شمعون مسیح اپنی بچیوں کی حالت پر آبدیدہ نظر آئے ۔

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا''ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں پڑھیں ،کوئی اچھا کام کریں لیکن انہیں اس کام میں کوئی تحفظ حاصل نہیں،ہمارے لئے بھٹہ مالکان کچھ کرتے ہیں نہ ہی سرکار کا کوئی عمل دخل ہے ہمیں مرنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے اور اگر ہم مر جائیں تو بھٹہ مالکان سے قرض لے کر کفن لیتے ہیں اور پھر اس قرض کو ہماری نسلیں اتارتی ہیں۔‘

خاندان کا سربراہ مرد ہے وہ پورے خاندان سے کام کرواتا ہے اور سب کے نام کی آمدنی بھی اسے ہی ملتی ہے۔''

دورانِ حمل،دوران زچگی ،بچے کی بیماری،اپنی بیماری یا کسی بھی ناگہانی صورت میں ان مزدور عورتوں کو نہ تو کوئی چھٹی  ملتی ہے نہ ہی معاوضہ ۔

  ایسی ہی ایک اورمزدور خاتون جن کا نام بھی رضیہ ہی ہے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ''میں اپنا بچہ پیدا ہونے کے تین دن بعد واپس کام پر آ گئی،یہاں ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے شام کو بچہ پیدا کیا اور اگلی صبح وہ اینٹیں بنا اوراٹھا رہی تھیں۔کیونکہ ہمیں مزدوری اتنی ہی ملے گا جتنا کام ہوگا۔ہم چھٹیاں نہیں کر سکتے۔‘‘

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا''ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں پڑھیں ،کوئی اچھا کام کریں لیکن انہیں اس کام میں کوئی تحفظ حاصل نہیں،ہمارے لئے بھٹہ مالکان کچھ کرتے ہیں نہ ہی سرکار کا کوئی عمل دخل ہے ہمیں مرنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے اور اگر ہم مر جائیں تو بھٹہ مالکان سے قرض لے کر کفن لیتے ہیں اور پھر اس قرض کو ہماری نسلیں اتارتی ہیں''۔

 بھٹہ مالک آصف جٹ خود کو مزدوروں سے زیادہ بے بس بتاتے ہیں۔

''ہم ان خواتین کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔  ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی سہولیات نہیں مل رہیں جو ہم انہیں فراہم کریں،ہمارا ان سے ٹھیکے والا حساب ہے جتنا انہوں نے کام کرنا ہے ہم نے سرکاری ریٹ پر اتنے پیسے ان کو دے دینے ہیں۔''

  بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان کی صدر مارتھا پروین خود بھی ایک مزدور خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں''میں نے شادی کے بعد سسرال والوں کو بھٹہ مزدور کی زندگی گزارتے دیکھا اس زندگی میں صرف تکلیف ،دکھ اور بے چارگی ہے۔  ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان مزدوروں کی زندگی میں بہتری لائیں لیکن ہمارا نظام ایسا ہے کہ یہ عمل بہت سست ہے میں بس یہی کہوں گی کہ بھٹہ مزدور عورتوں کی کوئی زندگی نہیں کوئی شناخت نہیں وہ اپنی مزدوری تک لینے کی اہل نہیں تو باقی حق بہت پیچھے رہ جاتے ہیں''۔

شیئر: