Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر کا عربوں سے رشتہ آج بھی برقرار

یہ غالباً 1950 کی دہائی کی ایک اندھیری رات تھی جب محمد اکبر اور ان کے والد سمندر سے لوٹے اور گوادر کے ساحل پر ایک ستون کے ساتھ اپنی کشتی باندھی۔

ان کے پیچھے اس وقت آتش بازی ہو رہی تھی، اور یہ آتش بازی ان کو یاد دلا رہی تھی کہ عید منانے کا آغاز ہو چکا ہے۔ عید منانے کے لیے 1958 تک گوادر میں سرکاری سطح پر اسی طرح اعلان کیا جاتا تھا۔
تاہم اب ایسا نہیں ہے، عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے 78 برس کے محمد اکبر نے بتایا کہ’ جب گوادر پاکستان کا حصہ بن گیا تو یہ رسم بھی نہ رہی۔‘
پاکستان کی حکومت نے سلطنت عمان سے ماہی گیری کا یہ چھوٹا سا شہر 5 ارب 50 کروڑ روپے میں خریدا تھا۔
بلوچستان میں واقع گہرے پانی کی اس بندرگاہ ’گوادر‘ کی ترقی کے لیے چین نہ صرف مالی امداد دے رہا ہے بلکہ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت دوسرے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
رواں برس فروری میں سعودی عرب نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ یہاں 10 ارب ڈالرز کی لاگت سے ایک تیل ریفائنری اور ایک پیٹرو کیمیکل کمپلیکس تعمیر کرے گا۔
لیکن ایک چھوٹے سے پسماندہ گاؤں سے بڑی بندرگاہ کی جانب گامزن گوادر اب بھی عرب تاریخ سے منسلک ہے۔
یہ علاقہ 12 کلومیٹر طویل پٹی پر پھیلا ہوا ہے جو کہ پاکستانی ساحل کو بحیرہ عرب سے منسلک کرتا ہے۔

سنہ 1783 میں خان آف قلات میر نوری نصیر خان بلوچ نے اس وقت کے مسقط کے شکست خوردہ حکمران تیمور سلطان کو گوادر کا کنٹرول دیا تھا۔ مسقط پر دوبارہ قبضے کے بعد سلطان نے اپنے ایک منتظم کے ذریعے گوادر پر حکمرانی کی۔ سنہ 1863 سے 1879 تک گوادر ایک برطانوی منتظم کا ہیڈ کوارٹر رہا اور سنہ 1950 کی دہائی میں حکومت پاکستان سے مذاکرات تک عمان کا سلطان گوادر کا حکمران رہا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گوادر کی ایک لاکھ چالیس ہزار آبادی میں 2 ہزار سے زائد افراد کے پاس پاکستان اورعمان دونوں ممالک کی شہریت ہے۔ ضلع مکران کے کئی رہائشی عمان میں فوج اور بحرین میں پولیس کے محکمے میں ملازمت کر رہے ہیں۔ گوادر کے رہائشیوں کی بہت بڑی تعداد عمان، قطر،متحدہ عرب امارات اور بحرین میں محنت مزدوری کرتی ہے۔
عمان نے اس علاقے میں تین قلعے بھی تعمیر کئے تھے جن میں سے ایک کی بحالی پر عمانی حکومت نے کام کیا ہے اور اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کا افتتاح سنہ 2007 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا۔
سماجی کارکن رحیم بخش جن کے والد نے گوادر کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے مہم چلائی تھی، کہتے ہیں کہ ’ میرا بھائی عمان میں کام کرتا ہے جبکہ میری بہن عمان کی شہریت رکھتی ہے، اور یہ یہاں ہر گھر کی کہانی ہے جو کہ ہمیں عرب دنیا سے جوڑتی ہے۔‘
78 برس کے محمد اکبر نے شہر کے باہر توپوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ اب ان سےعید کا اعلان نہیں کیا جاتا لیکن ہم اب بھی روزہ ویسے ہی کھولتے ہیں جیسے کہ عرب کرتے ہیں۔‘
 بلوچستان کے باقی علاقوں کے برعکس یہاں کے لوگ کھجوروں، لسی اور دہی سے افطاری کرتے ہیں اور تراویح کے بعد کھانا کھاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے گھروں میں ایک عرب ڈش
’ساکون‘ جو کہ کھجوروں اور گندم سے بنائی جاتی ہے، رشتہ داروں اور محلے میں تقسیم کی جاتی ہے۔
80 برس کی سکینہ بی بی کہتی ہیں کہ’ گوادر میں خواتین اب بھی عرب روایات پرعمل کرتی ہیں ’ وہ اود کی خوشبو استعمال کرنا پسند کرتی ہیں، اود کو کوئلے پر رکھا جاتا ہے اور پھر اس کا دھواں   
 الماریوں میں چھوڑا جاتا ہے تاکہ کپڑوں میں دیر تک خوشبو رہے۔‘
سکینہ بی بی کا کہنا ہے کہ جب کبھی بھی عمان یا خلیجی ممالک سے رشتہ دار تحفوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو خواتین اکثران سے اود لانے کا ہی کہتی ہیں۔
گوادر کے لوگ افریقی اور عرب رقص ’ لیوا‘ بھی کرتے ہیں جس میں ایک آدمی ڈرم بجاتا ہے اور لوگ اس کے ارد گرد رقص کرتے ہیں۔
ایسے ہی بہت سارے لوگ اب بھی شادیوں، عید اور نماز جمعہ کے لیے کندورہ پہنتے ہیں۔
گوادر کے دوسرے لوگوں کی طرح ایک مچھیرے داد کریم کے پاس والدین کا عمانی پاسپورٹ موجود ہے، وہ کہتے ہیں کہ گوادر کے لوگ پاکستانی حکومت کی تنقید برداشت کر سکتے ہے لیکن اس
وقت وہ غصے میں آ جاتے ہیں جب کوئی عمان کے حکمرانوں کے خلاف کچھ بولے۔
’ جب کوئی باہر سے دوسری آبادی پر حکمرانی کرتا ہے، تو مقامی لوگ اس چیز کو نا پسند کرتے ہیں، لیکن ہمارا معاملہ کچھ خاص ہے اور وہ محبت اور صرف محبت ہے۔‘

 

شیئر: