Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جعلی شادیوں والے چینی وزٹ ویزے پر تھے‘

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق پاکستانی لڑکیوں سے جعلی شادیوں کی آڑ میں مبینہ طور پر انسانی سمگلنگ میں ملوث چینی مرد سفر کے لیے وزٹ ویزوں پر آئے تھے ۔
پیر کو صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں آٹھ چینی باشندوں پر مشتمل ایک گروہ گرفتار کیا تھا جن میں چار پاکستانی بھی شامل تھے جبکہ منگل کو ایف آئی اے نے راولپنڈی سے مزید تین چینی شہریوں سمیت سات افراد کو حراست میں لیا ہے۔
منگل کو ایف آئی اے اسلام آباد کے زون کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق راولپنڈی سے حراست میں لیے گئے افراد میں گینگ کے سرغنہ سونگ چیویانگ کے علاوہ ساجد نامی سہولت کار اور رفیق حسین نامی مترجم بھی شامل ہیں ۔
ایف آئی اے کے مطابق طیبہ گل اور بینش رشید کی درخواست پر چار مزید افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ ان میں گیونگ دا کو صائمہ مصطفیٰ کے ساتھ اور فوسنگ بو کو صبا جہانگیر کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے ۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈئر اعجاز احمد شاہ نے جسم فروشی اور انسانی سمگلنگ میں چینیوں کے ملوث ہونے کا نوٹس لیا ہے اور سفارت کاروں سرکاری افسران کو یہ معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ فوری ایکشن لیا جائے۔

ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر  نے نام نہ بتانے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث اس چینی گروہ کا یہ انفرادی عمل ہے اور اس کو قومی مفاد اور پاکستان چین اقتصادی راہداری(سی پیک) سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے پروجیکٹس کے لیے آئے چینیوں کے ویزے ان کی کمپنیاں دیتی ہے جبکہ یہ گروہ انفرادی طور پر وزٹ ویزوں پر آیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان وزٹ ویزوں کی مدت کا تعین  کیسز کو دیکھ کر جاری کرتا ہے۔
’دھوکہ دہی کا شکار نہ ہوں‘
دوسری جانب اسلام آباد میں قائم چینی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’چین شادی کروانے والے غیرقانونی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن میں پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ہم چینی اور پاکستانی شہریوں کو محفوظ رہنے اور دھوکہ دہی کا شکار نہ ہونے کی یادہانی کرواتے ہیں۔‘ 

’لڑکیوں کی سمگلنگ روکی جائے‘
خیال رہے کہ گذشتہ مہینے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن ڈاکٹر شنیلہ روتھ نے قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف میں یہ معاملہ اٹھایا تھا اور کمیٹی کو بتایا تھا کہ چینی باشندے صوبہ پنجاب کی مسیحی لڑکیوں سے شادیوں کے بعد ان کو جسم فروشی پر مجبور کرتے ہیں اور ان کے اعضا بیچتے ہیں۔
اردونیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شنیلہ روتھ کا کہنا تھا کہ ’شادی کرنا کوئی بری بات نہیں، چین کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہے اور یہ تعلق خراب نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ جعلی شادیوں والا معاملہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک تشویشناک مسئلہ ہے، ہم چاہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو دیکھا جائے اور ان لڑکیوں کی سمگلنگ روکی جائے۔‘
‘ایک رشتہ دار کی شادی پر دیکھا تھا اور شادی کے لیے پیسے بھی دیے‘
انیس برس کی مہک پرویز کی شادی ایک فالج زدہ چینی شخص سے ہوئی تھی ،  وہ اس کے ساتھ ڈیڑھ مہینہ رہی تھی، اس کے ساتھ  چین اس لیے نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ چین میں دوسری لڑکیوں کے ایسے کیسز سامنے آ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ پریشان ہو گئی تھی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پانچ دن بعد کہا کہ میں نے ان کے ساتھ نہیں رہنا، ہم لاہور میں تھے، انھوں نے میرا فون بھی لے لیا تھا،  اور مجھے میرے گھر نہیں جانے دے رہے تھے لیکن جب مجھے میرے والد لینے آئے کہ میری امی بیمار ہے تو میں اپنے والدین کے گھر آئی اور پھر نہیں گئی۔‘

مہک پرویز نے بتایا کہ ’جس چینی سے میری شادی ہوئی تو اس نے مجھے ایک رشتہ دار کی شادی پر دیکھا تھا اور مجھے پسند کیا اور شادی کی تاریخ بھی خود ہی بتائی، اور شادی کے لیے پیسے بھی دیے۔‘
مہک پرویز نے مزید بتایا کہ ’وہ بندہ مسیحی نہیں تھا، وہ اتنا بولتا تھا کہ چین میں گرجا گھر ہے اور وہ لوگ عبادت کرنے جاتے ہیں۔‘
مہک پرویز کا کہنا تھا کی ان کی ایک کزن کی بھی چین میں شادی ہوئی تھی اور اس کے واپس آنے کے بعد میں وہاں نہیں جانا چاہتی تھی۔
’ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن سلیم اقبال دعویٰ کرتے ہیں کہ سرگودھا، گجرانوالہ، راولپنڈی، لاہور اور اسلام آباد سے 700 کے قریب مسیحی لڑکیوں کی شادیاں ہوئی ہیں تاہم اس دعوے کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ۔
 

شیئر: