Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوزی لینڈ میں رائل کمیشن کی تحقیقات

نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے گئے حملوں کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے ۔ تفتیش کے لیے قائم رائل کمیشن نے پیر کو ثبوت اکھٹے کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
رائل کمیشن کو نیوزی لینڈ میں تحقیقات کا سب سے اعلیٰ فورم سمجھا جا تا ہے ۔ یہ فورم ان عوامل اور محرکات کی جانچ پڑتال کرے گا جن کی وجہ سے 15 مارچ کو ایک  حملہ آور نے دو مساجد پر حملے کر کے 51  لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ 
فرانسیسی خبر رساں ادراے اے ایف پی کے مطابق تفتیش سے یہ پتہ لگایا جائے گا کہ آیا نیوزی لینڈ کی پولیس اور انٹیلی جنس اس حملے کو روک سکتی تھی یا نہیں ۔  
رائل کمیشن کی تحقیقات کی تفصیلات 10 دسمبر تک رپورٹ کی شکل اختیار کریں گی  تاہم تفتیش کے دوران عوام کی حفاظت کے لیے اہم معلومات مقررہ تاریخ سے قبل دی جا سکتی ہیں ۔

نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم جیسنڈا ارڈن کا کہنا تھا، ’یہ حملے کے جواب میں ہماری کارروائی کا اہم حصہ ہے۔ کمیشن کے نتائج ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنے میں مدد کریں گے کہ آئندہ یہاں ایسے حملے کبھی نہ ہوں۔‘
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملے کا بعد ملک کے انٹیلی جنس ادارے تنقید کی زد میں آئے کہ انہوں نے اپنی توجہ صرف اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی دہشت گردی پر رکھی اور سفید فام دائیں بازو کی انتہاپسندی کو نظر انداز کیا۔
کرائسٹ چرچ حملے کے تمام متاثرین مسلمان تھے اور ان کا قتلِ عام مبینہ طور پر ایک ایسے سفید فام شخص کی طرف سے کیا گیا جو اس بات کو مانتا تھا کہ مسلمان مغربی ممالک پر ’قبضہ کرنا‘ چاہتے ہیں۔
حملہ آور برنٹن ٹیرنٹ اٹھائیس سال کا سفید فام شخص تھا، جس کی ذہنی حالت کا معائنہ جاری ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔

رائل کمیشن حملے سے پہلے برنٹن ٹیرنٹ کی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لے گا جس میں ملزم کے سوشل میڈیا کے استعمال کو بھی دیکھا جائے گا ۔
کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملوں کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت نے ملک میں اسلحہ رکھنے کے قانون کو سخت کر دیا ہے اور  نفرت انگیز تقاریر کے قانون کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ آن لائن شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کریں۔

شیئر: