Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ کے ڈاکٹر اعصابی الجھنوں کا شکار کیوں؟

پاکستان کے صوبہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کے بیشتر ڈاکٹرز اس وقت شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔ 
بظاہر اپنے روز مرہ کے معمولات انجام دیتے ہوئے یہ لوگ بہت مطمئن نظرآتے ہیں لیکن ایک انجانے خوف کے ہاتھوں یہ ہمہ وقت اعصابی الجھنوں اور پریشانی کا شکار بھی رہتے ہیں۔
اور وہ خوف ہے اغواٗ برائے تاوان کا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کوئٹہ کے سربراہ ڈاکٹر کلیم اللہ مندوخیل کے مطابق گذشتہ دس سالوں کے دوران 33 ڈاکٹرز کو اغوا کیا گیا جنہیں کئی ہفتے اور مہینے حراست میں رکھنے کے بعد کروڑوں روپے تاوان لے کر چھوڑا گیا۔

‘عمر بھر کا خوف‘

اغوا برائے تاوان کی پے در پے وارداتوں کے بعد کوئٹہ شہر کا ہر ڈاکٹر اس خوف کا شکار ہو گیا ہے کہ اس کی باری کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور اس وجہ سے وہ ہمہ وقت ذہنی دبائو کا شکار رہتا ہے۔
نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر شیخ ابراہیم خلیل کو پچھلے سال 13 دسمبرکو کوئٹہ کے پوش علاقے سے اغواکیا گیا تھا اور وہ تقریباً 50 دن تک اغوا کاروں کی قید میں رہے۔
ڈاکٹرزایکشن کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ظاہر خان مندوخیل کے مطابق ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو پانچ کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا۔ 
اس سے قبل بھی کوئٹہ کے کئی معروف ڈاکٹرز کو اغوا کیا گیا تھا تو انہیں قید سے چھڑانے کے لیے خاندان والوں کو کروڑوں روپے تاوان ادا کرنا پڑا۔
’اردو نیوز‘ نے ان میں سے بعض متاثرہ ڈاکٹرز اور ان کے خاندان کے افراد سے رابطہ کیا مگر انہوں نے سکیورٹی خدشات کے تحت بات کرنے سے معذرت کرلی۔’
ڈاکٹر کلیم اللہ مندوخیل کے مطابق اغوا برائے تاوان میں ملوث لوگ انتہائی طاقت ور ہیں جن کے سامنے حکومتی شخصیات اور ادارے تک بے بس نظر آتے ہیں۔
اغوا اور رہائی ملنے کے آٹھ دس سال بعد بھی ڈاکٹرز اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ اس بابت خلوت میں بھی کچھ نہیں بتاتے۔ ان ڈاکٹروں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کچھ بتا دیا تو انہیں یا ان کے خاندان کے افراد کو نقصان پہنچایا جائے گا۔

نقل مکانی

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان بلوچستان کے وائس چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ڈاکٹر صرف اغوا ہی نہیں ہوئے بلکہ نسلی اور مسلکی بنیادوں پر قتل بھی ہوئے ہیں۔ 
کوئٹہ کے معروف جنرل فزیشن ڈاکٹر نادر خان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا تو وہ بیرون ملک چلے گئے اب وہ وہیں سے ویڈیو لنک کے ذریعے کوئٹہ میں بیٹھے اپنے مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر کلیم اللہ مندوخیل کے مطابق ایک دہائی کے دوران 18 ڈاکٹروں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کوئٹہ میں ڈاکٹر لفظ جس کسی کے نام کے ساتھ بھی لگا ہے وہ عدم تحفظ کا شکار ہے اور عدم تحفظ کے احساس اور بے یقینی کی صورت حال کے باعث نہ صرف ڈاکٹر خود بلکہ ان کے بچے اور ان کے خاندان کے افراد کو ‘۔ نفسیاتی دباﺅ کا سامنا ہے
 ڈاکٹرکلیم اللہ مندوخیل کہتے ہیں کہ ’وہ ڈاکٹر جس کی مالی حالت اچھی ہے وہ جب صبح کے وقت سرکاری ہسپتال جاتا ہے تو ایک راستے سے اور شام کے وقت کلینک جاتا ہے تو دوسرے راستے سے، انہیں ہر وقت اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کب اٹھایا جائےگا یا کب نشانہ بنایا جائے گا‘۔‘
 درجنوں ڈاکٹراور ان کے خاندان بدامنی کی وجہ سے بلوچستان یا پھر ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اب بھی بڑی تعداد میں ڈاکٹرز اپنی سرکاری ملازمت کا اسلام آباد یا پنجاب تبادلہ کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے پس پردہ کوششیں کررہے ہیں ۔ اوربعض نے تو تبادلے نہ ہونے پر سرکاری ملازمتیں تک چھوڑدی ہیں۔
صرف ڈاکٹرز ہی نہیں بہت سی ایسی نرسیں جو پنجاب سے آ کر بلوچستان کے ہسپتالوں میں خدمات انجام دے رہی تھیں وہ بھی بدامنی کی وجہ سے واپس جاچکی ہیں۔ 
انسانی حقوق کمیشن کے رہنما حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق نقل مکانی کرنے والوں میں اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کئی ڈاکٹر انڈیا منتقل ہوچکے ہیں۔

’ہرڈاکٹر کے ساتھ محافظ نہیں لگا سکتے‘

بلوچستان کی واحد میڈیکل یونیورسٹی بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر لعل خان کاکڑ کہتے ہیں کہ اگرچہ پہلے کی نسبت بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے مگر پھر بھی ڈاکٹرز خود کو بہت زیادہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں، ان کو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی دھمکیاں ملتی ہیں۔
ڈاکٹر لعل خان کاکڑنے کہا کہ دنیا میں شاید ہی کہیں ہسپتال کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہو مگر کوئٹہ میں دونوں بڑے سرکاری ہسپتالوں پر حالیہ سالوں میں تین مرتبہ خودکش حملے کیے گئے۔
کوئٹہ پولیس کے سربراہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل عبدالرزاق چیمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹرز کی سکیورٹی کے لیے وہ ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس نے کام کی جگہ یعنی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو سکیورٹی دی ہوئی ہے۔ کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ کئی نجی ہسپتالوں کے ارد گرد بھی سکیورٹی ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہر ڈاکٹر کے ساتھ ان کی گاڑی میں ایک پولیس اہلکار بٹھادیا جائے کیونکہ ہمارے پاس اتنی نفری نہیں ہے۔‘

ڈاکٹرز کے اغوا میں کونسے گروہ ملوث ہیں؟

ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ ڈاکٹروں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے والوں میں جرائم پیشہ عناصر بھی ملوث ہوتے ہیں اور کالعدم تنظیموں کے لوگ بھی جو فنڈز کے حصول کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی جو آخری اغوا برائے تاوان کا کیس ہوا، اطلاعات کے مطابق اس گروہ نے صرف پیسے کی لالچ میں یہ اقدام کیا تھا۔ اس کا کسی دوسرے گروہ (شدت پسند تنظیم) سے تعلق ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ ہمیں امید ہے کہ ہم یہ کیس کبھی  نہ کبھی حل کرلیں گے۔‘

ڈاکٹرز کو ہی کیوں اغوا کیا جاتا ہے؟

ڈاکٹر کلیم اللہ مندوخیل کا کہنا ہے کہ چونکہ ڈاکٹر آسان ہدف ہوتا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا بھی مشکل نہیں ہوتا، انہیں سکیورٹی بھی مؤثر فراہم نہیں کی جاتی اس لیے ڈاکٹر کو آسانی سے نشانہ بنالیا جاتا ہے۔ اب بیشتر سینیئر ڈاکٹرز نے خود نجی سکیورٹی گارڈ رکھنا شروع کردیے ہیں جو گھر، ہسپتال اور کلینک میں ہر وقت ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے رہنما حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق عدم تحفظ کی وجہ سے اساتذہ، ڈاکٹر اور پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے صوبہ چھوڑنے سے بلوچستان کے لوگوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مزید پس ماندگی کا شکار ہوگیا ہے۔ پڑھے لکھے طبقے کے افراد کے قتل یا نقل مکانی سے پیدا ہونے والا خلا آئندہ کئی دہائیوں تک بھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔ 

شیئر: