Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوبی پنجاب صوبہ کیا محض سیاسی نعرہ ہے؟

جنوبی پنجاب صوبے کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے

پاکستان کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبے کے لیے قومی اسمبلی سے قررداد منظور کرانے کے بعد جنوبی ملتان سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے وائس چیئرمین اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نئے صوبے کے لیے سیاسی مہم شروع کر دی ہے۔
دوسری طرف حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کھل کر جنوبی پنجاب صوبے کے بجائے بہاولپور صوبے کا مطالبہ کر دیا اور اس معاملے پر حکومت چھوڑنے تک کی دھمکی دے دی ۔
اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز بھی ایک جنوبی پنجاب صوبے کے بجائے بہالپور سمیت 2 نئے صوبوں کی حمایت کر رہی ہے۔ ان حالات میں کیا جنوبی پنجاب صوبہ حقیقت کا روپ دھار پائے گا؟


تین اضلاع پر مشتمل بہاولپور صوبہ قابل عمل نہیں، شاہ محمود قریشی

صوبہ یقیناً بنے گا،شاہ محمود قریشی

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ یقینا بنے گا۔ اس کی ضرورت بھی ہے اور ہماری خواہش بھی ہے جس کی وجہ سے اسے پارٹی منشور کا حصہ بنایا گیا تھا۔
طارق بشیر چیمہ کے ساتھ اختلافات پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے موقف کا احترام کرتے ہیں مگر بہالپور کبھی صوبہ نہیں تھا وہ ریاست تھی۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق تین اضلاع پر مشتمل بہالپور صوبہ بظاہر قابل عمل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر نے جنوبی پنجاب صوبے کے لیے خصوصی کمیٹی بنا دی ۔ کمیٹی کی سطح پر اگلے اجلاس کے بعد مشاورت شروع کر دی جائے گی۔ تاہم یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے حکومتی قانون سازی کے طور پر اس بل کو اسپانسر نہیں کیا۔بلکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر بہاولپور سے منتخب ہونے والے سمیع الحق گیلانی نے یہ بل پرائیوٹ رکن کے بل کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

حکمران اتحاد میں دراڑ

دوسری طرف وفاقی وزیر ہاوسنگ طارق بشیر چیمہ نے اسی ہفتے بہالپور میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بہالپور صوبے کے لیے ہر دروازے پر جائیں گے۔ اگر اس ایشو پر حکومت چھوڑنی پڑی تو چھوڑ دیں گے۔انہوں نے شاہ محمود قریشی کی منطق کو ناقابل فہم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم عمران خان ان کی حمایت کریں گے۔ اس سے قبل مسلم لیگ نون کی جانب سے پنجاب میں دو صوبوں (جنوبی پنجاب اور بہاولپور) کے قیام کیلئے قومی اسمبلی میں بل پیش کئے تھے۔

 بہالپور صوبے کے لیے ہر دروازے پر جائیں گے، وفاقی وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ

جنوبی پنجاب صوبہ کیسا ہو گا؟

شاہ محمود قریشی نے اسی ہفتے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے جنوبی پنجاب صوبہ وجود میں آئے گا جو ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی ڈویژن پر مشتمل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک صوبہ بنے گا تو اس کی علیحدہ اسمبلی کا وجود بھی ضروری ہے، جنوبی پنجاب اسمبلی کی کل سیٹیں 120 ہوں گی جس میں 95 منتخب ممبران کی ہوں گی، اس طرح اپر پنجاب کی سیٹیں 251 رہ جائیں گے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کی علیحدہ ہائیکورٹ ہوگی اور اپنا چیف جسٹس ہوگا، نئے صوبے کے بعد پاکستان کے صوبے پانچ ہوجائیں گے۔

’اس عیاشی کیلئے مالی وسائل ہی نہیں‘

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار اوراخبار پاکستان ٹوڈے کے ایڈیٹر عارف نظامی نے کہا کہ فی الحال جنوبی پنجاب صوبے کی صرف باتیں ہی کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر بھی اختلافات ہیں اور اپوزیشن بھی منقسم ہے۔ ’یہ ایک کاغذی منصوبہ ہے کچھ عملی نہیں کیوں کہ اس عیاشی کے لئے وسائل ہی نہیں ہیں۔ خزانہ خالی اور معاشی حالات خراب ہیں‘۔

سیاسی محازآرائی کے ماحول میں علیحدہ صوبے پر پیش رفت مشکل ہے، سیاسی تجزیہ کار عارف نظامی

انہوں نے کہا سیاسی سطح پر بھی محاز آرائی کا ماحول ہے ایسے میں صوبہ کے حوالے سے پیش رفت انتہائی مشکل نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تحریک کے حوالے سے سیاست بھی ایک محرک ہے۔ شاہ محمود قریشی سمجھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا تو وہ اس کے وزیراعلی بن سکتے ہیں۔ عارف نظامی کے خیال میں پی ٹی آئی بطور جماعت اس تحریک کے پیچھے نہیں۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام پر پارٹی میں آنے والے ارکان اسمبلی اس معاملے پر مکمل خاموش ہیں۔

’سنجیدگی نظر نہیں آتی‘

روزنامہ جنگ ملتان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ظفر آہیر بطور صحافی گزشتہ کئی عشروں سے سرا ئیکی صوبے، جنوبی پنجاب صوبے کے معاملے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ تحریک سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی دوسرے مسئلے سے توجہ ہٹانی ہو جنوبی پنجاب کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے مگر اس کا مقصد صوبہ بنانا نہیں ہوتا۔ ’یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔۔پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرح کے اعلانات کیے گئے مگر جب کوئی پیش رفت ہونے لگتی ہے بہالپور صوبے کے مطالبے کے لیے لوگ کھڑے کر دئے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورحکومت میں جب جنوبی پنجاب صوبے کے لیے بات شروع ہوئی تو سابق وزیراطلاعات محمد علی درانی بہالپور صوبے کے مطالبے کے ساتھ سامنے آگئے تھے۔ انہوں نے کہا جنوبی پنجاب صوبے کے لیے دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے جوحکومت پاس نہیں ہے ۔

شیئر: