Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مودی راجیو گاندھی کا نام بار بار کیوں لیتے ہیں؟

راجیو آج بھی بھارت کی سیاست میں زندہ ہیں اور مودی بار بار ان کا نام لیتے ہیں
نریندر مودی پہ اس وقت الیکشن جیتنے کا جنون سوار ہے اور اس مقصد کے حصول میں وہ کسی کو بھی بخشنے کو تیار نہیں ہیں۔ اپنی آٹھ مئی کی تقریر میں انہوں نے راجیو گاندھی کو کرپٹ نمبر ون قرار دیا۔
مودی راجیو پر اور بھی برسے اور انہیں بھارتی نیوی کے جہاز کو اپنی ذاتی تفریح کے لیے استعمال کرنےکا ذمہ دار ٹھہرایا۔ مودی پلوامہ کے بعد اپنی ساری الیکشن کمپین قومی سلامتی کے تناظر میں کر رہے ہیں اس لیے وہ کانگریس کو ملکی سلامتی کے لیے قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔
مودی کو اس بیان پہ اپوزیشن کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ اپنی موت کے 30 سال بعد بھی راجیو گاندھی انڈیا کے سیاسی منظر نامے پر زندہ ہیں؟
راجیو کی زندگی میں حادثات کا بہت عمل دخل رہا۔ ایک حادثہ انہیں اس وقت سیاست میں لایا جب ان کے بھائی سنجے کی طیارے کے حادثے میں موت ہو گئی اور دوسرا حادثہ انہیں حکومت میں لے آیا جب ان کی والدہ اندرا گاندھی کو انہی کے سیکیورٹی گارڈز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
تیسرا حادثہ راجیو کے ساتھ خود پیش آیا جب ایک خودکش حملے میں ان کی اپنی جان چلی گئی۔

راجیو گاندھی ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے
راجیو گاندھی ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے

راجیو بھارت کی تاریخ کے سب سے کم عمر وزیر اعظم تھے اور اس وقت میں بھارت کے وزیر اعظم بنے جب عالمی سیاست کے منظرنامے پر ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔
سویت یونین اپنے انہدام کے قریب تھا اور امریکہ دنیا کی تنہا طاقت بننے کے قریب قریب تھا۔ بھارت کے اندر ہندو قومیت پسندی کا تصور راسخ ہو رہا تھا اور بھارت کی سیاست کانگریس کی مضبوط گرفت سے نکل کر گٹھ بندن کی جانب بڑھ رہی تھی۔ راجیو اپنے نانا اور والدہ کی طرح کرشماتی شخصیت کے حامل بالکل بھی نہیں تھے لہذا ان کی سیاست بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔
باوجود اس کے کہ انہیں لوک سبھا میں انڈیا کی تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ ملا اور وہ انڈیا کے لیے ایک امید کی کرن بن کر ابھرے مگر انڈیا کی سیاست کو کوئی نئی سمت نہیں دے سکے۔
محقق اتل کوہلی کے بقول راجیو ایک فعال حکومت کرنے میں ناکام رہے اور ان کی پالیسیاں تذبذب کا شکار رہیں۔ جب راجیو حکومت میں آئے تو بہت پرامید تھے مگر کار سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے سے یکسر نا آشنا رہے اور یوں سیاسی نظام کی حرکیات جوں کی توں رہیں اور انڈیا کو کچھ نیا دیکھنے کو نہ مل سکا۔
راجیو کو سب سے بڑا چیلنج سکھ شورش کے بعد پنپنے والی صورتحال کا تھا اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اندرا گاندھی کی موت کے بعد سکھوں کو اس کا بہت بھاری خمیازہ ادا کرنا پڑا جب غم و غصے کی لہر کا سامنا ایک عام سکھ کو کرنا پڑا۔

کانگریس آج بھی راجیو کے نام پے سیاست کرتی ہے
کانگریس آج بھی راجیو کے نام پے سیاست کرتی ہے

راجیو گاندھی راجیو لونگوال معاہدے پہ عمل درآمد نہ کروا سکے یوں 1985 میں 64، 1986میں چھ سو، اور 1987 میں تین ہزار لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ راجیو اسے محض قانون اور امن کا مسئلہ سمجھتے رہے اور ان کی 1984کے منظم قتل و غارت کی تحقیق میں دلچسپی نہ لینا پنجاب میں کانگریس کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنا۔
راجیو پر مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام بھی لگتا رہا۔ شاہ بانو کیس اس کی ایک روشن مثال ہے۔ اندور کی رہائشی 62 سالہ شاہ بانو نے طلاق کے بعد نان و نفقہ کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور سپریم کورٹ نے اس کے حق میں بھی فیصلہ سنا دیا مگر راجیو نے مسلم ووٹ کو بچانے کے لیے ایک خالصتاً انسانی حقوق کے مسئلے پہ لوک سبھا کا سہارا لیا اور سپریم کورٹ کے حکم کو نافذ نہیں ہونے دیا۔
یوں مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی ہئیت میں قائم رہا۔
راجیو ہی کے دور میں رامائن کی ڈرامائی تشکیل ہوئی اور اسے ٹی وی چینل دور درشن پہ دکھایا گیا۔ راجیو کے ناقد اس قدم کو بھی مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے برابر گردانتے ہیں۔
راجیو معشیت کی بدلتی ہوئی حقیقتوں کا بھی ادراک نہ کر سکے اور جب عالمگیریت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی اور دینا کی معشیتیں نئے تقاضوں کے مطابق اپنی حکمت عملیاں بنی رہی تھیں مگر راجیو کانگریس کے روایتی بائیں بازو کی طرف جھکاو کی طرف ہی مائل رہے۔
گو کہ بعد میں کانگریس نے ہی نرسیما راو کی حکومت میں بھارتی معشیت کے خدوخال بدل دیے اور اسے نئی سمت عطا کی جس نے آج بھارت کو ایک ابھرتی ہوئی طاقت بنا دیا ہے۔

راجیو کو سب سے بڑا چیلنج سکھ شورش کے بعد پنپنے والی صورتحال کا تھا
راجیو کو سب سے بڑا چیلنج سکھ شورش کے بعد پنپنے والی صورتحال کا تھا

راجیو پر الزامات بھی بے شمار لگے جس میں بوفرس سکینڈل سب سے نمایاں رہا جو بھارت اور سویڈن کے مابین اسلحے کا معاہدہ تھا۔ راجیو پہ سوئس اکاونٹس میں پیسے رکھنے کے الزامات بھی لگے۔
روس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی (کمیٹی فار سٹیٹ سکیورٹی) سے پیسے لینے کا الزام بھی راجیو کے سر آیا۔
راجیو پر بھارتی نیوی کے جہاز ویرات کو بھی ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگتا رہا جو آج بھی لگ رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تو راجیو پر نیوی کے جہاز کو ذاتی ٹیکسی کی طرح چلانے کے الزامات لگاتی ہے۔
یہی وجہ ہے جب راہول مودی کو رافیل ڈیل کے تناظر میں چوکیدار چور ہے کا طعنہ دیتے ہیں تو مودی ان کے والد کو کرپٹ نمبر ون ہونے کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔
بی جے پی راجیو کو مسلم اقلیت کو خوش کرنے پر لتاڑ کر اپنا ووٹ بنک بھی بڑھاتی ہے اور راجیو کی معاشی پالیسوں پہ تبرا کر کے اپنی پالیسوں کے لیے ستائش بھی چاہتی ہے۔
بی جے پی پنجاب میں راجیو کے اوپر تنقید کر کے سکھوں کی حمایت لینے کی کوشش کرتی ہے اور راجیو کے انداز سیاست پر تنقید کے نشتر سے مودی اپنے حریف راہول گاندھی کو بھی پچھلے قدم پر دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ راجیو آج بھی بھارت کی سیاست میں زندہ ہیں اور مودی بار بار ان کا نام لیتے ہیں۔

شیئر: