Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اور 'فرشتے' کے مارے جانے پر احتجاج

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پانچ دن قبل لاپتہ ہونے والی 10 سالہ بچی فرشتہ کی نعش گھر سے دو کلومیٹر دور جنگل سے ملی ہے ۔ 
پیر کو رات گئے تک نعش کا پوسٹ مارٹم نہ ہونے پر اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال کے سامنے قومی اسمبلی کے ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر نے درجنوں افراد کے ساتھ دھرنا دیا ۔
اسلام آباد کے نواحی علاقے علی پور کے رہائشی گل نبی نے تھانہ شہزاد ٹاؤن کو اپنی بیٹی کی گمشدگی کی اطلاع 16 مئی کی شام دی تھی۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے گل نبی نے کہا کہ ’فرشتہ 15 مئی کو شام پانچ بجے گھر سے باہر کھیلنے گئی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم نے تلاش شروع کی اور اگلے دن تک رشتہ داروں سے رابطے کرتے رہے۔‘
تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج کیے گئے مقدمے کے مطابق گل نبی کی اطلاع پر فرشتہ کی گمشدگی کی ابتدائی رپٹ 16 مئی کو رات آٹھ بجے روزنامچے میں درج کی گئی۔ 
گل نبی نے بتایا کہ پولیس ان کو بار بار بچی کو رشتہ داروں کے گھر ڈھونڈنے کا کہتے ہوئے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر رہی تھی مگر 19 مئی کی رات جب مقامی رہائشیوں نے تھانے جا کر احتجاج کیا تب ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا۔ 
قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے رات گئے ٹویٹ کیا ’پانچ دن قبل لاپتہ ہونے والی فرشتہ کی گمشدگی کی ایف آئی آر اس وقت درج کی جب اس کی نعش مل گئی۔‘

ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر پولی کلینک ہسپتال کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں

فرشتہ کے والد کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے محلے کے دو افراد کو بچی کے قتل کے الزام میں پولیس کے حوالے کیا ہے۔ گل نبی کے مطابق افغان شہری نے پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔ 
گل نبی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے طور پر بچی کی تلاش جاری رکھی ہوئی تھی جب ان کو 20 مئی کی شام پولیس نے فرشتہ کی نعش ملنے کی اطلاع دی ۔ ان کا کہنا تھا کہ فرشتہ کی نعش تمہ گاؤں کے رہائشیوں نے قریبی جنگل میں دیکھی جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی ۔ 
گل نبی نے کہا کہ جس جگہ سے نعش ملی وہ ان کے گھر سے دو اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 
سوشل میڈیا پر ’جسٹس فار فرشتہ‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ہزاروں صارفین نے معصوم بچی کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
فرشتہ کے والدین کا آبائی تعلق مہمند ایجنسی سے ہے اس وجہ سے پشتون اور قبائلی پس منظر رکھنے والے صارفین سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ 
گل نبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ سنہ 1984 میں علی پور منتقل ہوئے ۔ انہوں نے کہا ’سبزی کی ریڑھی لگاتا ہوں جس سے گزر بسر ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آٹھ بچے تھے۔ ’چار لڑکے اور چار لڑکیاں ۔ سکول نہیں جا پاتے ہماری اتنی گنجائش ہی نہیں ہے۔‘
گل نبی کے مطابق ان کے سب سے چھوٹے بچے کی عمر اڑھائی سال ہے جس کے دل میں سوراخ ہے مگر غربت کی وجہ سے علاج نہیں کرا سکتے ۔’وہ ٹیسٹ کرانے کے بھی 3500 روپے مانگ رہے تھے کہاں سے لاؤں۔‘

شیئر: