Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امن مذاکرات کے نتیجے میں افغان میڈیا کی آزادی ختم ہونے کا خدشہ‘

واپس اس دور میں جانے کے خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے جب مکمل میڈیا بلیک آؤٹ تھا۔
افغانستان میں صحافیوں اور میڈیا صارفین کو خدشہ ہے کہ طالبان اور امریکہ کے مابین ممکنہ معاہدہ ہونے کے بعد آزادی صحافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ہیواد ٹی وی کے ڈائریکٹر صدیق اللہ خالق کا کہنا تھا کہ ان کو مستقبل میں میڈیا پرمکمل یا جزوی پابندیاں لگنے پرتشویش ہے اور واپس اس دور میں جانے کے خدشہ کا اظہار کیا جب مکمل میڈیا بلیک آؤٹ تھا یا ریاست کے کنٹرول میں تھا۔
طالبان نے اپنے دور حکومت میں ہر قسم کے روائیتی میڈیا اور تفریح پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ ٹیلی ویژن اور فلمیں دیکھنا جرم تھا، اور پکڑے جانے کی صورت میں سزا ملتی تھی یا ٹیلی ویژن توڑ دیا جاتا تھا۔
لیکن پچھلے 10 سال سے زیادہ کے عرصے میں افغان میڈیا نے بہت ترقی کی ہے اور اب ٹی وی پر چلائے جانے والے بحث مباحثوں میں با اثر افراد سے بے ججھک سوال کیے جاتے ہیں جو پہلے ممکن نہیں تھا۔ ایسے پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں جن میں عوام کو حکمرانوں سے سوال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
طالبان کے دور میں صرف ’وائس آف شریعا‘ کے نام سے ریڈیو سٹیشن چلتا تھا جو طالبان صرف اسلامی پروگرام چلانے یا پروپگینڈا کے لیے استعمال کرتے تھے۔  تقریباً تمام الیکٹرانک مصنوعات کو غیر اسلامی قرار دے دیا گیا تھا۔ کچھ عرصے تک تو کابل کے درختوں پر تباہ شدہ وڈیو اور آڈیو کیسٹ کے کالے ربن ہوا میں لہراتے نظر آتے تھے۔
یہاں تک کہ جانداروں کی تصویریں کھینچنا غیرقانونی سمجھا جاتا تھا اور ویڈیو پلیئر رکھنے والے کو سرعام کوڑے مارے جاتے تھے۔

طالبان کے جانے کے بعد افغان میڈیا نے بے حد ترقی کی۔

لیکن پچھلے چند سالوں میں حاصل کی گئی تمام تر آزادیوں کے باوجود افغانستان کو صحافیوں کے لیے سب سے خوفناک جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ افغان صحافیوں کو بے حد خطرے کا سامنا رہتا ہے اور ان کو پیشہ وارانہ فرائض سر انجام دینے پر نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نامی میڈیا واچ ڈاگ گروپ نے سال 2018 کو افغان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا تھا۔ تقریباً 15 میڈیا اہلکار گزشتہ سال میں ہلاک ہوئے تھے۔
خطروں کے باوجود افغانستان میں سال 2001 سے سینکڑوں نئی میڈیا آرگینائزیشنز کھلی ہیں۔ آج افغانستان میں 100 ٹی وی چینلز، 284 ریڈیو سٹیشن، اور 400 سے زیادہ اخبار اور میگزین چل رہے ہیں۔
ریڈیو میزبان میرا ہمدم کا کہنا تھا ’ہم اب لائیو موسیقی چلاتے ہیں، عورتیں فون کر کہ ریڈیو پر اپنے مسائل بتاتی ہیں۔ لیکن اگر طالبان ریڈیو چلانے کی اجازت دیں بھی تو مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس قسم کے  پروگرام چلا سکیں گے۔ اس عرصے میں حاصل کی گئی تمام کامیابیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔‘
طالبان ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ حکومت میں واپس آنےکے بعد آزادی اظہار رائے اسلامی نظریات کے مطابق ہو گی۔
طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور گزشتہ ہفتے مکمل ہوا تھا جس میں اہم مسائل پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
میڈیا سپورٹ ایجنسی این اے آئی نے جاری بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ امن مذاکرات سے طے پانے والا معاہدہ آزادی اظہار رائے کی یقین دہانی کرائے۔

شیئر: