Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاما پہلوان: مشرق کے ہرکولیس

گاما پہلوان ایک عہد کا نام ہے
سنہ 1902 میں ہندوستان کے شہر بڑودہ کے باسیوں نے ایک ایسا منظر دیکھا جسے دیکھنے والے زندگی بھر فراموش نہ کر سکے۔ 
روایت کے مطابق ایک نوجوان نے ایک پتھر دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر فضا میں بلند کیا تھا۔ 
لیکن اس میں ایسی کیا بات تھی؟ اس پتھر کا وزن صرف 1200 کلوگرام تھا، یعنی دو ہاتھی کے بچوں یا ایک ٹویوٹا کرولا جتنا وزن۔ 
یہ پتھر آج بھی بڑودہ کے سایا جی باگ عجائب گھر میں محفوظ ہے اور جس تنومند نے اسے کسی گھاس پھونس کی پوٹلی کی طرح اٹھایا اسے دنیا رستم زمان گاما پہلوان کے نام سے یاد کرتی ہے۔ 
گاما پہلوان کسی دیومالائی کردار کا حقیقی روپ تھے۔ انھیں مشرق کا ہرکولیس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، گھنی لمبی مونچھیں، قد پانچ فٹ سات انچ، چوڑا سینہ تقریبا 46 انچ اور کمر 34 انچ تھی لیکن مزاج ایسا کہ کبھی کسی کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ 
دیسی کشتی لڑنے والے پہلوانوں کا خوف ہوتا ہے کہ وہ بوڑھے نہ ہو جائیں۔ لیکن گاما پہلوان تا دم مرگ شاید بوڑھا نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے 50 برس کشتی لڑی اور پھر شاید مایوس ہو کر کنارہ کشی اس لیے اختیار کر لی کہ کوئی بھی پہلوان اکھاڑے میں ان کا سامنا کرنے سے کتراتا تھا۔ تقریبا 400 مقابلوں میں فتح ان کے نام پر ریکارڈ ہے اور وہ زندگی بھر ناقابل تسخیر رہے۔ 

گاما پہلوان ڈنڈ نکالتے ہوئے

گاما پہلوان، ایک عہد

گاما پہلوان کا اصل نام غلام محمد بخش تھا اور ان کا جنم ضلع امرتسر کے ایک گاؤں جبووال میں پہلوانی سے وابستہ ایک مسلمان کشمیری گھرانے میں ہوا۔ 
گاما پہلوان کے والد محمد عزیز بخش بھی پہلوان تھے اور ان کے بڑے بھائی امام بخش بھی پہلوانی کا ایک روشن باب تھے۔ دونوں بھائیوں نے گھر سے ہی پہلوانی کا درس حاصل کیا لیکن گاما پہلوان کی عمر چھ سال ہی تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔  اس کے بعد وہ اپنے نانا نون پہلوان کے زیراثر رہے۔ نانا کے انتقال کے بعد ان کے ماموں عیدا پہلوان نے ان کی تربیت کی۔ 
گاما پہلوان پہلی بار پہلوانی کے میدان میں اس وقت منظر عام پر آئے جب سنہ 1888 میں ریاست جودھ پور کے مہاراجہ نے پہلوانی کا ایک مقابلہ منعقد کروایا۔ اس مقابلے میں ہندوستان بھر سے چار سو سے زائد پہلوانوں نے شرکت کی۔ اس مقابلے کے بہترین 15 پہلوانوں میں گاما پہلوان بھی شامل تھے اور اس وقت ان کی عمر صرف دس برس تھی۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر مدھیہ پردیش کی ریاست دتیہ کے مہاراجہ کے زیرسایہ پہلوانی کی تربیت حاصل کی۔ 
کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ گاما پہلوان کو چیلنج کرتا اور اگر کسی موقعے پر کسی پہلوان نے گاما پہلوان کو مقابلے کی دعوت دی تو گاما کہتے تھے کہ پہلے وہ ان کے بڑے بھائی امام بخش پہلوان کو چت کریں۔ 
لیکن گاما پہلوان پر قسمت کی دیوی اس وقت مہربان ہوئی جب سنہ 1895 میں انھوں نے 17 برس کی عمر میں اس وقت کے رستم ہند رحیم بخش سلطانی والا کو مقابلے کی دعوت دی۔ 
رحیم بخش سلطانی والا کا تعلق بھی ایک کشمیری خاندان سے تھا، سات فٹ قد کا حامل یہ پہلوان کسی دیو کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ سنہ 1960 میں شائع ہونے والے جریدے نقوش لاہور نمبر کے مطابق گاما پہلوان اور رحیم بخش سلطانی والا کے درمیان چار مقابلے ہوئے۔ لاہور، جوناگڑھ اور اندور میں ہونے والے یہ مقابلے کئی گھنٹے جاری رہنے کے بعد بغیر کسی نتیجے پر ختم ہوئے اور گاما پہلوان کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ اس کے بعد انہیں اگلے رستم ہند کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ تاہم رحیم بخش سلطانی والا کو زیر کرنے کے لیے انھیں مزید کچھ سال انتطار کرنا پڑا۔

اخبارات میں گاما کو برطانوی راج کے خلاف مقامی مزاحمت کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا جانے لگا تھا

گاما پہلوان جب رستم زمان بنے

سنہ 1910 تک گاما پہلوان رحیم بخش سلطانی والا کے علاوہ ہندوستان کے تمام نامور پہلوانوں کو چت کر چکے تھے، اس کے بعد انھوں نے اپنے بھائی امام بخش پہلوان کے ہمراہ یورپ اور انگلستان کا دورہ کیا اور دنیا کے نامور پہلوانوں کو کشتی میں دو دو ہاتھ کرنے کی دعوت دی۔ 
یہ دور گاما پہلوان کی زندگی کا بلاشبہ اہم ترین دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان پر برطانوی راج قائم تھا اور یہیں سے دو دیسی پہلوان انگریزوں کے درمیان مقابلے کے لیے پہنچے تھے۔ یہ گاما پہلوان کے لیے اعصاب کی جنگ تھی، باہر اس کا مقابلہ انگریز پہلوانوں کو زیر کر کے انہیں ہندوستان کی طاقت باور کروانا تھا، اور اندرونی طور پر ان کا مقابلہ پہلوانی اپنے بڑے بھائی امام بخش پہلوان سے بھی تھا کہ دیار غیر میں ایک ہی کوکھ سے جنم لینے والے دو بھائیوں میں سے خود کو زیادہ بہتر کون ثابت کرتا ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے امام بخش زیادہ بہتر پہلوان تھے لیکن گاما پہلوان کی طاقت ان کی تکنیک پر بھاری تھی۔ 
برطانیہ نوآبادیاتی نظام کے ذریعے تقریبا نصف دنیا پر حکمرانی کر رہا تھا اور پنجاب کے ایک گاؤں سے دو جوان  دنیا کے طاقتور ترین شخص کا اعزاز حاصل کرنے اور اس کا غرور خاک میں ملانے کا عزم لیے ہوئے تھے،  اخبارات میں انہیں برطانوی راج کے خلاف مقامی مزاحمت کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا جانے لگا جس سے انگریز سرکار کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ وہ مقامی آبادی میں بغاوت کی چنگاری بھی بھڑکا سکتا ہے۔ 
’نقوش‘ لاہور نمبر میں گاما پہلوان کے بارے میں اس بارے میں تفصیلی ذکر ملتا ہے کہ سنہ 1910 میں ایک بینجمن نامی شخص گاما پہلوان اور امام بخش پہلوان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا لیکن اٹلی اور فرانس میں کوئی پہلوان ان کے مقابلے میں نہ آیا، پھر وہ لندن پہنچے جہاں دنیا بھر کے پہلوان جمع تھے جن میں ترکی کے رستم محمود، ماریکی پہلوان رولینڈ، اطالوی رستم جان لیمب، انگلستان کے ہاک سمتھ اور پولش پہلوان ستنیسواو زبیشکو شامل تھے۔ یہیں گاما پہلوان نے اعلان کیا کہ جو پہلوان ان سے پانچ منٹ تک کشتی لڑے گا وہ انھیں پانچ پاؤنڈ انعام دیں گے، چنانچہ گلاسکو، لیورپول، مانچسٹر وغیرہ میں 40 کشتیاں ہوئیں لیکن کوئی انھیں پچھاڑ نہ سکا تھا۔ بعد میں امریکی رستم رولینڈ نے کشتی لڑی اور گامنے نے اسے بھی چند منٹوں میں گرا دیا۔ 
اس کے بعد پولش پہلوان  ستنیسواو زبیشکو نے گاما پہلوان سے نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کیا۔ 

گاما پہلوان نے لندن میں رستم زماں کا خطاب حاصل کیا

یہ ایک تاریخی کشتی تھی۔ اس واقعے کا ذکرستنیسواو زبیشکو نے سنہ 1937 میں شائع ہونے والی اپنی آپ بیتی ’ان دی باکسنگ رنگز آف دی ورلڈ‘ میں کیا ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں سنہ 1914 تک کے واقعات قلم بند کیے گئے ہیں۔ 
زبیشکو  لکھتے ہیں کہ ‘پٹیالہ کے مہاراجہ نے ’شیرِ پنجاب‘ کو فرینک گوچ، جارج ہیکنشمڈ اور ستنیسواو زبیشکو کو چیر پھاڑنے کے لیے بھیجا، اس کو ایک اشتہاری حربہ سمجھتے ہوئے میں نے یہ چیلنج نظرانداز کر دیا۔‘ 
تاہم یہ حقارت آمیز رویہ اس وقت تبدیل ہوا جب زیبشکو نے گاما پہلوان کو امریکی پہلوان ڈاکٹر بینجمن رولر کے ساتھ دیکھا، وہ لکھتے ہیں کہ ‘میں گاما اور امام بخش کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔‘ 
’اس سے پہلے میں نے کبھی ان دونوں سے بہتر اور اتنے خوبصورت جسم کے مالک ایتھلیٹ کو نہیں دیکھا تھا۔ گاما ’شیرِ پنجاب‘ کہلوانے کا حقدار تھا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی ایسا جسمانی تناسب نہیں دیکھا تھا، چھاتی، بازؤں، کمر اور ٹانگوں کا حسین امتراج۔‘  
گاما پہلوان نے رولر کو دو بار پٹخ کر شکست دی تھی اور مقابلے کے ڈیڑھ منٹ میں انھوں نے اسے پہلی بار زیر کر دیا تھا۔ زبیشکو لکھتے ہیں کہ ’یہ میرے لیے کچھ خوشگوار منظر نہیں تھا۔ میں ڈاکٹر کے ساتھ ٹریننگ میں ایسا کرنے کے قریب بھی نہیں تھا۔‘ 
زبیشکو کو اب گاما پہلوان کا مقابلہ کرنا تھا جس کے لیے دس ستمبر 1910 کی تاریخ طے پا گئی تھی، اور ان کے پاس تیاری کا کافی وقت تھا اور انھوں نے اس کی بھرپور تیاری بھی کی۔ 

گاما پہلوان اور زبیشکو کے درمیان مقابلے کا ایک پوسٹر (بشکریہ عامر متین)

اس مقابلے کی میزبانی جان بل میگزین نے کی تھی اور زبیشکو کے مطابق وہ یہ مقابلہ جیتے یا ہارے اسے فروخت ہونے والی ٹکٹوں کی 25 فیصد رقم ضرور ملنا تھا۔ بالآخر یہ مقابلہ ہوا، اور پہلے ہی منٹ میں گاما پہلوان نے زبیشکو کو گرا دیا لیکن وہ فورا اٹھا اور پھر دو گھنٹے زور آزمائی کے باوجود کوئی بھی فاتح نہ ہو سکا۔
اس کے بعد دوبارہ مقابلے کی تاریخ کا اعلان کیا گیا لیکن زبیشکو مقابلے کے لیے نہ آئے۔ جس کے بعد گاما پہلوان کو ’رستم زماں‘ کا خطاب حاصل ہوا، انھیں ایک طلائی پیٹی اور گرز بھی عطا کیا گیا۔ 
اس حوالے سے امریکی مصنفہ تانیہ جیمز کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ’ایروگرمز‘ کی ایک کہانی ’لائن اینڈ پینتھر ان لندن‘ میں ذکر ملتا ہے، جس میں وہ گاما اور امام بخش پہلوان کی لندن آمد اور نوآبادیاتی نظام کے عروج کے دوران دیسی پہلوانوں کی نفسیات اور کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔
لندن سے واپسی پر انھوں نے رحیم بخش سلطانی والا کو لکھنئو میں ہونے والی کشتی میں زیر کر کے ’رستم ہند‘ کا اعزاز حاصل کر لیا۔
سنہ 1927 تک گاما پہلوان ناقابل شکست رہے تھے اور برصغیر کے تمام نامی گرامی پہلوانوں کو چت کر چکے تھے۔ 
سنہ 1928 میں بالآخر ان کا سامنا ایک بار پھر زبیشکو کے ساتھ ہوا اور اس بار پٹیالہ میں میدان سجا لیکن مقابلہ 30 سکینڈ میں تمام ہو گیا، سنگاپور کے ایک اخبار میں تین مارچ 1928 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق ’گاما بجلی کی سی تیزی سے جھپٹے اور زبیشکو کو پچھاڑ کر ان کی چھاتی پر بیٹھ گئے اور عوام کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ مقابلہ ختم ہو چکا ہے۔‘ اخبار کے مطابق ’زبیشکو نے اس مقابلے کے بعد گاما کو ایک شیر اور سپورٹس مین کہا تھا۔‘ 

امام بخش پہلوان اور گاما پہلوان

’پہلوانی برداشت کا نام ہے‘

گاما پہلوان کی کامیابیوں کی داستان خاصی طویل ہے۔ بطور ایک کھلاڑی آج بھی ان کو یاد کیا جاتا لیکن ان کی شخصیت کے پہلو اور بھی تھے۔ 
قدیم مغربی ادب میں پہلوانوں کو عام طور پر ایک وحشی کردار کے صورت میں پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن پنجاب اور ہندوستان میں پہلوان کی ایک منفرد شناخت ’ذمہ دار شہری‘ اور ’سماجی طور پر بارعب و بااختیار‘ شخص کی رہی ہے۔
گاما پہلوان کے اس حوالے سے کئی واقعات مشہور ہیں کہ کس طرح انھوں نے کئی مواقع پر کمزوروں کا ساتھ دیا اور بلاوجہ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا، ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پھل فروش نے ان کے سر پر وزن کرنے والا باٹ دے مارا تھا جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا لیکن انھوں نے اس پر ہاتھ اٹھانے کے بجائے اپنے گھر کی جانب جانا زیادہ مناسب سمجھا۔ 
اسی طرح ’دی ہندو‘ اخبار میں ہندوستان میں پہلوانی پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں بیان کیا گیا کہ آج بھی مہاراشٹر میں نوجوان پہلوانوں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ’گاما پہلوان جیسا بنیں۔‘ اسی مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ سنہ 1947 میں گاما پہلوان کا خاندان امرتسر سے لاہور کے علاقے موہنی روڈ پر منتقل ہو گیا تھا جوکہ ایک ہندو آبادی والا علاقہ تھا، شہر میں فسادات کی فضا تھی اور بلوؤں کا خطرہ تھا، اس دوران گاما پہلوان اور ان کے خاندان کے افراد ہندو خاندانوں کی حفاظت کے لیے محلے کے باہر کھڑے ہو جاتے تاکہ کوئی ان پر حملہ نہ کر سکے۔ جب تک تمام ہندو خاندان وہاں سے بحفاظت انڈیا منتقل نہیں ہوگئے انھوں نے یہ ذمہ داری نبھائی۔ 
دولت مشترکہ کھیلوں میں دو بار طلائی تمغہ جیتنے والے پہلوان محمد انعام بٹ نے گاما پہلوان کے بارے میں ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ’پہلوانی برداشت کا نام ہے اور یہی سبق ہم نے گاما پہلوان سے سیکھا ہے۔ پہلوان کی خوراک کیا ہونی چاہیے اس کا درس بھی ہمیں گاما پہلوان سے ملتا ہے اور ٹریننگ کیسے کرنی چاہیے اور اپنے جسم کو مضبوط کیسے بنایا جا سکتا ہے اس کے لیے بھی ہم گاما پہلوان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’گاما پہلوان جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔‘ 

بروس لی بھی گاما پہلوان سے بہت متاثر تھے

سابق اولمپیئن محمد انور پہلوان بھی آج پاکستان میں دیسی کشتی کی روایت کا سہرا گاما پہلوان کے سر باندھتے ہیں۔ انھوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگر اس وقت اولمپکس میں پہلوانی ہوتی تو بے شمار تمغے جیتے جا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ گاما پہلوان اور ان کے خاندان کی ہی خدمت ہے کہ انھوں نے پاکستان کو ایسے پہلوان دیے جو آج بھی پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔‘ ان کے بقول گاما پہلوان کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ان کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، پانچوں بیٹے چھوٹی عمر میں ہی انتقال کر گئے تھے تاہم ان کے خاندان میں پہلوانی ان کے بڑے بھائی امام بخش کے توسط سے جاری رہی جن کی اولاد میں بھولو برادران پہلوانوں نے نام کمایا۔
مشہور زمانہ مارشل آرٹ کھلاڑی اور اداکار بروس لی بھی گاما پہلوان سے متاثر تھے، انھوں نے اپنی کتاب ’دی آرٹ آف ایکسپریسنگ ہیومن باڈی‘ میں گاما پہلوان کے ڈنڈ، بیٹھکوں اور ورزش کے مختلف طریقے اپنانے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ 

بیگم کلثوم نواز گاما پہلوان کی نواسی تھیں

آج گاما پہلوان کہاں ہے؟ 

گاما پہلوان کو کیا پاکستان میں وہ مقام حاصل ہوا جس کے وہ صحیح حقدار تھے؟ برصغیر میں ناقابل شکست رہنے والے اور دنیا بھر میں پہلی بار بطور ہندوستانی پہلوان بڑے بڑے سورماؤں کا غرور خاک میں ملانے والے گاما پہلوان شاید آج ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ 
گاما پہلوان کے نام پر پاکستان میں شاید ہی کوئی یادگار ہو تاہم ان کا نام آج بھی مذاق اور طنز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی سے منسلک محقق ڈاکٹر مجید شیخ کہتے ہیں کہ ’اب بھی اگر کوئی اپنے مسل دکھانے کی کوشش کرے تو اسے مذاق میں کہا جاتا ہے ’اوے، گاما نہ بنو‘ یہاں تک کہ ان کے والد بھی بچپن میں ان سے کہتے تھے کہ ’دودھ ختم کرو، ورنہ تم گامے جیسا نہیں بن سکو گے۔‘ 
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان بحریہ کی ایک ٹگنگ بوٹ یعنی بڑے بڑے جہازوں کو کھینچ کر ساحل پر لانے والی ایک کشتی کا نام ’گاما‘ ہے، یہ ایک چھوٹی کشتی ہے لیکن انتہائی طاقتور مشین ہے جو بلاشبہ گاما پہلوان کے طرح چھوٹے قد لیکن طاقت ور جسامت کی یاد دلاتی ہے۔ 

گاما پہلوان کے آخری ایام کی تصویر۔ (تصویر بشکریہ لیل و نہار میگزین)

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گاما پہلوان کی زندگی پر پاکستان میں کوئی فلم نہیں بنائی گئی۔ حال ہی میں بالی وڈ سٹار سلمان خان اور ان کے بھائی سہیل خان نے گاما پہلوان کی زندگی پر ایک ٹیلی فلم بنانے کا اعلان بھی کیا تھا جس میں سلمان خان گاما پہلوان کے روپ میں نظر آئیں گے۔ 
ایک اور انڈین فلم ساز و مصنف نکیش شکلا نے بھی گاما پہلوان کو پردہ سکرین پر دکھانے کا اعلان کیا ہے۔ 
مجید شیخ کہتے ہیں گاما پہلوان سے ان کی ملاقات لاہور میں مصری شاہ میں ان کے گھر ہوئی تھی لیکن اس وقت وہ کافی نحیف اور کسمپسری کی حالت میں تھے۔
گاما پہلوان کی موت سے چند برس قبل انھیں ایک سانپ نے کاٹ لیا تھا لیکن بروقت طبی امداد سے ان کی جان بچا لی گئی تاہم آنے والے برسوں میں ان کی صحت بگڑتی گئی اور وہ 23 مئی 1960 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے، انھیں لاہور میں پیر مکی مزار کے قریب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ 

شیئر: