ایف آئی اے کے مطابق وکلا، ڈاکٹر،اعلیٰ حکومتی اور پولیس افسران سمیت ہر طبقے کے افراد اس جعل سازی کا شکار ہوئے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حکام کے مطابق ہزاروں افراد راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں کنگال ہو گئے۔ موٹرسائیکل کے کاروبار کے نام پر ایک نجی کمپنی کے مالکان ہزاروں شہریوں کے اربوں روپے لے کر فرار ہو گئے ہیں۔
متاثرین میں عام افراد ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سرکاری افسران، وکلا، ڈاکٹر اورمیڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی ) کے کوئٹہ میں موجود حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ہزاروں شہریوں نے درخواستیں جمع کرائی ہیں کہ تھری اے الائنس نام کی ایک نجی کمپنی نے دھوکہ دہی اور جعل سازی سے ان سے بھاری رقوم لوٹ لی ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے پشین سٹاپ پر واقع فوٹو سٹیٹ کی نصف درجن کے قریب دکانوں پر غیر معمولی رش ان لوگوں کا ہے جو اس کمپنی کے مالیاتی دھوکہ دہی کا شکار ہوئے ہیں۔ متاثرین یہاں سے شکایتی فارم حاصل کر کے ایس ای سی پی کے ذیلی دفتر میں جمع کرا رہے ہیں۔
چند قدم کے فاصلے پر موجود ایس ای سی پی کے دفتر کے باہر شکایت جمع کرانے والوں کی لمبی قطار میں 28 سالہ سعداللہ بھی کھڑے ہیں۔ مستونگ سے تعلق رکھنے والے سعداللہ کا خاندانی پیشہ گلہ بانی ہے۔ وہ مال مویشی پال کر اسے عید الاضحیٰ سے قبل فروخت کر کے پورے سال کا گزر بسر کرتے تھے۔
اس بار انہوں نے عید سے قبل ہی تمام پچاس بکریاں تین لاکھ آٹھ ہزار روپے میں فروخت کر کے زیادہ منافع کے لالچ میں کوئٹہ کی تھری اے الائنس نامی نجی کمپنی کو دے دیے۔ ایسا انہوں نے اپنے ایک رشتہ دار محمد عارف کے کہنے پر کیا۔
محمد عارف نے انہیں بتایا تھا کہ یہ کمپنی ہر ماہ ان تین لاکھ روپے کے بدلے انہیں قریباً 45 ہزار روپے منافع دے گی مگر منافع ملا اور نہ ہی اپنا سرمایہ۔
الیکٹریشن کے کام سے ماہانہ 10 ہزار روپے کمانے والے محمد عارف نے دوستوں اور رشتہ داروں سے پانچ لاکھ روپے لے کر کمپنی میں سرمایہ لگایا تھا۔ اس میں ایک ہمسائے کی بیوہ کی رقم بھی شامل تھی۔
اس سے قبل اتوار کی رات کو کمپنی میں پیسے لگانے والے سینکڑوں شہریوں کو یہ خبر ملی کہ کمپنی کا مالک رقم لے کر بھاگ گیا ہے تو وہ کوئٹہ کے پوش علاقے جناح ٹاﺅن میں قائم کمپنی کے مرکزی اور شہر میں پھیلے اس کے ذیلی دفاتر پہنچے مگر سب پر تالے دیکھ کر سکتے میں آ گئے۔
متاثرین میں کسی نے مکان فروخت کرکے تو کسی نے سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پینشن کی رقم کمپنی کو دی تھی ۔ کوئی ادھار کی رقم اور کوئی عمر بھر کی جمع پونجی کو زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں دے بیٹھا۔
اس فراڈ کا شکار صرف کوئٹہ کے لوگ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں لورا لائی، سبی، دُکی اور قلعہ سیف اللہ کے رہائشی بھی ہوئے ہیں۔
رقم واپسی کا کوئی راستہ نہ پا کر سب نے مل کر ایف آئی اے کے دفتر اور پھر پریس کلب کے باہر جمع ہو کر احتجاج کیا ۔ احتجاج کی کوریج کے لیے آنے والے میڈیا کے نمائندوں کی کثیر تعداد خود بھی متاثرین میں شامل تھی۔
اخبارات کے مالکان، ٹی وی چینلز کے بیورو چیفس، رپورٹرز، کیمرامین اور ڈرائیورز سمیت 10 میڈیا ہاﺅسز کے دو درجن سے زائد افراد کے ساتھ بھی فراڈ ہوا ہے۔
متاثرین میں ایک نجی ٹی وی کے کیمرہ مین شہیر خان نے بتایا کہ انہوں نے 46 لاکھ روپے کی رقم اس کمپنی کو سرمایہ کاری کی مد میں دی۔
انہوں نے بتایا کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنے کے لیے انہوں نے ایک بینک سے 22 لاکھ روپے کی گاڑی 34 لاکھ روپے اقساط میں خریدی اور پھر 17 لاکھ روپے نقد میں فروخت کر دی۔ باقی رقم انہوں نے چھوٹے بھائی، دوستوں اور رشتہ داروں سے لی۔
شہیر نے بتایا کہ ان 46 لاکھ روپے کے بدلے ہر 35 دن بعد انہیں قریباً 5 لاکھ روپے منافع ملتا تھا ۔ چند ماہ تک اس کا منافع ملا جس سے بینک سے اقساط پر خریدی گئی گاڑی کا 12 لاکھ روپے سود ادا کر دیا مگر باقی تمام سرمایہ ڈوب گیا۔ 'منافع کمانے کے بجائے الٹا 22 لاکھ روپے کا مقروض ہو گیا ہوں۔'
انہوں نے بتایا کہ کمپنی تمام رقم نقد ہی وصول کرتی تھی اور ہمیں سادہ کاغذ پر مہر لگی رسید دی جاتی تھیں۔ لین دین کا مرکزی کردار کاشف قمر نامی شخص تھا جو اب روپوش ہو گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کوئٹہ میں ترجمان کے مطابق امیگریشن ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم کاشف قمر 20 مئی کی شام کو کراچی سے ترکش ایئر لائن کی پرواز ٹی کے 709 سے بیرون ملک فرار ہو گیا ہے۔
پولیس کے مطابق کمپنی کے مالک کاشف قمر کے خلاف متاثرین کی مدعیت میں دھوکہ دہی کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ420 کے تحت تھانہ جناح ٹاﺅن میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ایس ایچ او جناح ٹاﺅن اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ ہم نے کمپنی کے دفتر کو سیل کر کے اس کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر علی مقبول کو گرفتار کر لیا ہے ۔ ملزم سے تفتیش کی جا رہی ہے مگر گرفتار ملزم کہہ رہا ہے کہ اس کے ساتھ بھی کمپنی کے مالک نے دھوکہ کیا ہے۔
ایس ای سی پی کے کوئٹہ میں موجود حکام کے مطابق دو روز میں ہزاروں افراد نے تھری اے الائنس نامی کمپنی کے خلاف دھوکہ دہی کی شکایات جمع کرائی ہیں ۔
ایس ای سی پی کے دفتر کے قریب واقع فوٹو سٹیٹ دکان کے مالک شاہ زمان کا کہنا ہے کہ وہ کل سے اب تک 1500 سے زائد شکایتی فارم فروخت کر چکے ہیں۔
ایف آئی اے کوئٹہ کے ایک افسر کے مطابق متاثرین کی ابتدائی تعداد سے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی فراڈ ہے۔ یہ معاملہ ایک دو ارب روپے کا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ مالیت کا ہے۔
ایف آئی اے کے افسر کا کہنا ہے کہ وکلا، ڈاکٹر، اعلیٰ حکومتی اور پولیس افسران سمیت قریباً ہر طبقے کے افراد اس جعل سازی کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے متاثرہ افراد اس لئے بھی سامنے نہیں آرہے کہ انہوں نے اپنا کالا دھن یہاں لگا رکھا تھا یا پھر اس لئے بھی چھپ رہے ہیں کہ سامنے آنے پر ان سے انکم ٹیکس اور دیگر معاملات کی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔
کمپنی کے ڈائریکٹر کاشف قمر نے بیرون ملک سے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کم سے کم ایک ارب روپے کی دھوکہ دہی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فراڈ انہوں نے نہیں بلکہ کمپنی کے ملازمین اور فرنچائز حاصل کرنے والے افراد نے کیا ہے۔ انہوں نے ایسے 30 سے زائد افراد کی فہرست بھی جاری کی ہے۔
ترجمان ایس ای سی پی نے اسلام آباد سے ٹیلیفون پر ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ تھری اے الائنس نام کی نجی کمپنی 14 فروری 2018ء کو رجسٹر کرائی گئی تھی، محمد فیصل خان چیف ایگزیکٹو آفیسر جبکہ چار ڈائریکٹرز میں کاشف قمر بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس قانون کے تحت تھری اے الائنس کی رجسٹریشن کرائی گئی اس کے تحت یہ کمپنی لوگوں سے سرمایہ کاری کی مد میں رقم وصول نہیں کرسکتی تھی۔
ترجمان ایس ای سی پی کے مطابق جب ہمیں رواں برس کے آغاز میں شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ کمپنی لوگوں سے رقم وصول کر رہی ہے تو ہم نے عوام کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات چھپوائے۔
ترجمان ایس ای سی پی کے مطابق مارچ سنہ 2019 میں تھری اے الائنس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی گئی۔ شکایات بڑھنے پر ایک ماہ قبل کمپنی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب ) کو کیس بھیج دیا تھا اور ہماری اطلاع کے مطابق نیب نے یہ کیس ایف آئی اے کو بھیج دیا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ایسا ہی ایک فراڈ فیصل آباد میں بھی ایم این اے موٹر سائیکل کمپنی کے نام سے ہوا، ہمیں پتہ چلا ہے کہ جس بندے نے کوئٹہ میں دھوکہ کیا وہ فیصل آباد والی کمپنی میں ملازم تھا۔
نیب بلوچستان کے کوئٹہ میں ترجمان نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ نیب نے آٹھ ماہ قبل اس کمپنی کے معاملات کی چھان بین کی تھی مگر اسے کسی قابل اعتراض سرگرمی سے متعلق ثبوت نہیں ملا۔
متاثرین نے شکایت کی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہوئی مگر بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ ایک کمپنی ڈیڑھ سال تک لوگوں سے رقوم جمع کرتی رہی مگر متعلقہ ادارے سوئے رہے۔ بروقت اقدام اٹھایا جاتا تو لوگوں کے اربوں روپے نہ ڈوبتے۔
کمپنی کے خلاف بروقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
ایس ای سی پی کے ترجمان نے اس سوال پر بتایا کہ قانون میں ان کے پاس کمپنیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کا اختیار نہیں۔ ’ہمارے پاس تفتیش کے اختیارات نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم گلی محلوں میں جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ کون سی کمپنی کیا کر رہی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ایس ای سی پی کے پاس ایک لاکھ سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور سب پر نظر رکھنا ممکن نہیں۔ جب ہمیں شکایت موصول ہوتی ہے تو ہم اس پر کارروائی کرتے ہیں۔
ترجمان ایس ای سی پی نے بتایا کہ قانون میں کسی کمپنی کو بند کرنے کا عمل بھی بہت پیچیدہ ہے۔ ایس ای سی پی اپنی مرضی سے کسی کمپنی کو بند نہیں کر سکتی بلکہ ایسا عدالت کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے جس میں وقت لگ جاتا ہے۔
جعل ساز کمپنی لوگوں کو کس طرح راغب کرتی تھی؟
ایک متاثرہ شخص عبداللہ نے بتایا کہ کمپنی نے شہر میں سینکڑوں ایجنٹ پھیلا رکھے تھے جن کی مدد سے وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ منافع کا لالچ دے کر اپنی طرف راغب کرتے تھے۔ کمپنی ہر سرمایہ کار کو نہ صرف رجسٹریشن کے کاغذات بلکہ کاروبار سودی نہ ہونے سے متعلق فتویٰ بھی دکھاتی تھی۔
شہیر خان نے بتایا کہ کمپنی والے ہمیں بتاتے تھے کہ وہ چین سے منگوائے گئے پرزہ جات سے حب میں قائم پلانٹ میں موٹر سائیکل بناتے ہیں اور پھر اسے فروخت کر کے منافع میں 60 فیصد حصہ خود رکھتی ہے اور 40 فیصد سرمایہ کار کو دے دیتی ہے۔
’ہر موٹر سائیکل کی قیمت انہوں نے 39 ہزار500 روپے مقرر کی تھی جس میں سے 60 فیصد رقم یعنی 23 ہزار روپے 700 لوگوں سے لیے جاتے تھے۔‘
اس طرح ہر موٹر سائیکل کے بدلے سرمایہ کار کو ہر35 روز بعد 3500 سو روپے منافع دیا جاتا تھا۔ لوگ منافع کی رقم بھی نہیں نکالتے تھے اور اسے بھی سرمائے کی اصل رقم کے ساتھ شامل کر کے زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتے تھے۔
کسی نے پانچ موٹر سائیکل تو کسی نے بیس موٹر سائیکل کی رقم جمع کرائی ۔ بعد میں کمپنی نے لورالائی اور سبی میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز بھی کھولے جہاں موٹر سائیکل کے علاوہ فریج اور دیگر سامان پر بھی اسی طرح کے منافع کی پیشکش کی جاتی تھی۔
شہیر خان نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر ایس ای سی پی نے مارچ میں اخبارات میں کمپنی سے متعلق تنبیہہ جاری کی تو لوگ خبردار ہو گئے اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی رقم نکالنا شروع کر دی۔
جب لوگوں نے رقم نکالنا شروع کی تو کمپنی نے پیسوں کی ادائیگی روک دی۔ کمپنی کی جانب سے بتایا جاتا تھا کہ ایس ای سی پی کی جانب سے کارروائی ہونے کے بعد ان کے اکاﺅنٹس بند ہو گئے ہیں یا پھر کوئی اور بہانہ کر لیا جاتا۔
ایس ای سی پی کی کارروائی کے بعد تھری اے الائنس کمپنی نے کام بند نہیں کیا بلکہ نام بدل کر بولان موٹرز کے نام سے لوگوں سے رقم کی وصولی کا کام جاری رکھا۔
ایف آئی اے کے کوئٹہ میں ترجمان کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے ساتھ جعلسازی کا کیس ایف آئی اے کے نہیں بلکہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تاہم نیب بلوچستان کے ترجمان کہتے ہیں کہ نیب نے اب تک اس معاملے میں کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔