Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی بولرز نے آخری بار یارکر کب مارا؟

ٹائی ٹینک دیکھی ہے آپ نے؟ اس فلم کے آخری سین میں جب جیک اور روز بھاگ رہے ہوتے ہیں اپنی جان بچانے کے لیے، تو بیک گراؤنڈ میں غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ وائلن بجانے والے بھائی لوگ مسلسل وائلن بجا رہے ہوتے ہیں۔ انھیں فرق نہیں پڑ رہا ہوتا کہ ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے،  لوگ مر رہے ہیں۔ وہ اسی طرح اپنا کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔
 ہماری قومی کرکٹ ٹیم بھی ٹائی ٹینک کے ان وائلن والے بھائیوں کی طرح  نظر آئی افغانستان کے خلاف اپنے وارم اپ  میچ میں۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ٹیم کو کس چیز کی ضرورت ہے، کیا کرنا چاہیے، پورے اوورز کھیلنے چاہئیں کہ نہیں، کس بولر کو کب آنا چاہیے، کون سا رن لینا چاہیے نہیں لینا چاہیے، وہ بس اپنی دھن میں مگن تھے اور ان کا صرف ایک مقصد تھا۔  ہم نے ہارنا ہے۔
 آپ سوچ رہے ہوں گے میں اتنا روتی کیوں ہوں؟ رونے کے علاوہ بچا ہی کیا ہے؟ مطلب ہماری ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بیٹنگ کی تھوڑی بہتر صلاحیت  دکھائی اور ہر میچ میں 300 سکور کر ڈالا۔ لیکن پھر ہم افغانستان کے خلاف وارم اپ میچ میں بور ہو گئے اور سوچا کہ شدید بیٹنگ پچ پر 300 سے کم رنز بنا کر دنیا کو حیران کر دیں گے۔  ہماری ٹیم 262 رنز بنا کر تھک گئی اور اوورز پورے کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
 ہمارے اوپنرز امام اور فخر، دونوں نے کوشش کی کہ جلد سے جلد آؤٹ ہو جائیں لیکن ہمارے افغان بھائیوں نے ان کے کیچز ڈراپ کر کے انہیں تھوڑا ٹائم دے دیا۔  پھر بابر اعظم آئے، انہوں نے 112 گیندوں پر 108 رنز بنائے اور ساتھ ہی کیچ پکڑا کے واپس  چلے گئے۔ حفیظ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ٹیم میں صرف ’امب‘ لینے آئے ہیں۔ دامادِ ہند ملک ’اک سو گڑونجا‘ برسوں سے کھیل رہے ہیں، اتنے تجربے کے بعد بھی ان سے اپنی ففٹی تک مکمل نہیں ہوئی۔ سرفراز احمد جن کی اس ٹیم میں کوئی جگہ نہیں، نے 13 رنز بنا ئے اور پھر ان کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی اور ٹھنڈے پسینے آ گئے کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں۔ سرفراز نے سوچا کہ جب ٹیم کو واقعی میری ضرورت ہے تو میں کیسے سکور بنا کر ضرورت پوری کر سکتا ہوں؟ اور پھر وہ آؤٹ ہو گئے۔ ٹیل اینڈرز کا تو پوچھیے ہی مت۔

ملک میں اور ٹیم میں پیسرز  کا ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے اور اظہر محمود کی پوری کوشش ہے کہ یہ ٹیلنٹ ختم ہو جائے: تصویر اے ایف پی

 اب آ جائیے  بولنگ سائیڈ پر۔ آخری بار جب پاکستانی بولرز نے یارکر مارا تھا تب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم  تھے اور پٹرول اتنا مہنگا نہیں ہوا تھا۔
گیم آف تھرونز بھی ختم نہیں ہوا تھا۔ جی اتنی ہی پرانی بات ہے۔ یارکرز جو ہمارے بولرز کی شان تھے، وہ ہماری ٹیم سے اتنا ہی دور ہیں جیسے اس ورلڈ کپ کی ٹرافی۔ ہمارا پورا بولنگ اٹیک اسی طرح ڈوبا ہوا ہے جیسے ٹائی ٹینک فلم کے اینڈ میں جیک ڈوبتا ہے۔ چلیں جیک نے تو روز کو بچا لیا تھا، ہمارے بولرز تو ٹیم کو بچانے کی بھی کوشش نہیں کر رہے۔ لیکن ہر میچ اور سیریز ہارنے کے بعد صرف ایک شخص بچ جاتا ہے۔  جی، ہمارے بولنگ کوچ اظہر محمود، ہر بار اسی طرح بچتے ہیں جیسے روز کا ٹائی ٹینک میں منگیتر بچا تھا۔ ٹیم کا بولنگ اٹیک ڈوبتا جا رہا ہے اور اظہر محمود خاموشی سے اپنی تنخواہ لیے جا رہے ہیں۔
  چلیں ہماری بیٹنگ تو کبھی ٹھیک نہیں رہی اور فیلڈنگ میں بھی ہم افغانستان ہی ہیں، لیکن کوئی اظہر محمود کی ناکام بولنگ کوچنگ پر کیوں نہیں بول رہا؟ اظہر محمود نے پاکستان کی بولنگ کوچ کی باگ ڈور سنہ 2016 میں سنبھالی۔ تب سے لے کر اب تک، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کوئی کمال بولرز آئے؟ نہیں۔ بلکہ جو بولرز ہیں ٹیم میں، ان کا سوا ستیا ناس ہی ہوا ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد امید تھی کہ ٹیم مزید بہتر ہوگی لیکن اظہر محمود وہ آئس برگ ثابت ہوئے ہیں جس سے ٹائی ٹینک ٹکرا کے ڈوبتا ہی چلا گیا۔  حسن علی کا ردھم ایک  دم ایسے ہی ختم ہوا ہے جیسے گیم آف تھرونز۔
شاہین، عامر، حسنین، فہیم وہ نام ہیں جو 340 جیسا سکور بھی ڈیفینڈ نہیں کر پا رہے۔ اور کوئی خدا کے لیے یاسر شاہ سے کہے کہ ’میسی‘ جیسی شکل ہونے کا  کوئی فائدہ نہیں اگر آپ کی پرفارمنس زیرو ہے۔ ان کو انگلینڈ میں اتنی مار پڑی ہے، جتنی شاید ہمیں۔۔۔ خیر چھوڑیں۔

 دیکھا جائے تو ہمارے پاس اس وقت کوئی بھی میچ ونر بولر نہیں ہے۔ وہاب کی سکواڈ میں واپسی پر میرے کچھ تحفظات تھے کیو نکہ وہ اکثر اوقات ایسی وائیڈ پھینکتے ہیں جو وہ کراتے لاہور سے ہیں اور جاتی گجرانوالہ ہے۔ لیکن افغانستان کے خلاف مجھے صرف ان میں ہی تھوڑا  تجربہ نظر آیا۔ مطلب سوچیے، وہاب اس وقت مجھے ٹیم کے مسیحا بولر نظر آ رہے ہیں۔
 ملک میں اور ٹیم میں پیسرز  کا ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے اور اظہر محمود کی پوری کوشش ہے کہ یہ ٹیلنٹ ختم ہو جائے۔ پی سی بی یا  اظہر محمود کو خود کوئی فیصلہ لے لینا چاہیے اس سے پہلے کہ ہماری قوم کہنا شروع کر دے کہ اظہر محمود غیرملکی ایجنٹ ہیں اور پاکستان کی بولنگ تباہ کرنے کے پیسے لیتے ہیں۔
 اس سب میں، میں اس قوم کو سلام پیش کرنا چاہتی ہوں جو اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ ورلٖڈ کپ ہمارا ہے۔ اور یہ امید ہماری پرفارمنس کے علاوہ باقی سب وجوہات کی بنا پر ہے۔ جیسے کہ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی ہم اپنا وارم اپ میچ ہارے تھے۔ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی ہماری ٹیم کا بیڑا غرق تھا۔ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی عمران خان ٹیم کے کپتان تھے اور 2019 کے ورلڈ کپ میں عمران خان ملک کے کپتان ہیں۔ یہی سب سوچ کر ہم اپنے آپ کو لارے لگا رہے ہیں اور ہر میچ کو دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔
  ہم نے 10 ون ڈے میچز مسلسل ہارے ہیں اور اب تو جیت کا سوچ کر ہماری حالت بھی روز جیسی ہو گئی ہے جس نے ٹائی ٹینک سٹوری سنانے سے پہلے کہا تھا: ’اِٹس بِین 84 ایئرز‘ یعنی 84 بیت چکے ہیں۔

شیئر: