Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مستونگ میں لڑکیوں کے سکولوں پر پراسرار کیمیکل حملے

سول ہسپتال میں موجود والدین اور رشتہ داروں نے متاثرہ طالبات کو مناسب علاج نہ ملنے کا بھی شکوہ کیا۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں حکام کے مطابق گزشتہ 10 دنوں کے دوران لڑکیوں کے تین مختلف سکولوں میں پراسرار کیمیکل سپرے سے 250 سے زائد طالبات متاثر ہوئی ہیں۔ 
متاثرہ طالبات کو جسم پر جلن، خارش اور سانس لینے میں دقت کی شکایات پر ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ علاقے کے منتخب نمائندے سینیٹر کبیر محمد شہی کا کہنا تھا ’یہ کیمیکل سپرے حملے لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف گھناﺅنی سازش ہے۔‘
مستونگ کے ڈپٹی کمشنر ممتاز کھیتران نے تصدیق کی ہے کہ مستونگ کے شہری علاقے کلی شمس آباد میں پیر کو پراسرار کیمیکل سپرے سے کم از کم 60 طالبات متاثر ہوئی ہیں جنہیں طبی امداد کے لیے مستونگ اور کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ مستونگ میں یہ اس نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے ۔ اس سے قبل 18 مئی کو کلی محمد شہی اور 22 مئی کو کلی اشکنہ میں لڑکیوں کے سرکاری سکولوں میں اس نوعیت کے سپرے سے تقریباً 200 طالبات متاثر ہوئیں۔
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول شمس آباد کی پرنسپل نازیہ نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ پیر کی صبح سکول میں کلاسیں شروع ہوئیں اورجب طالبات اپنی کلاس رومز میں گئیں تو کچھ دیر بعد ہی ساتویں سے دسویں جماعت کی تقریباً 60 طالبات نے طبیعت خراب ہونے کی شکایت کی۔ ’ہم نے دیکھا کہ طالبات کے ہاتھوں اور جسم پر نشانات ابھر رہے ہیں۔ وہ جسم پر خارش اور جلن محسوس کر رہی تھیں اس لیے ہم نے فوری طور پر انہیں مستونگ کے نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال پہنچایا جہاں سے 30 کے قریب طالبات کو مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔‘
سول ہسپتال کوئٹہ کے دتو چلڈرن وارڈ کے ڈاکٹر نے بتایا کہ متاثرہ طالبات کو طبی امداد فراہم کر دی گئی ہے جس سے انہیں آرام آ گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام متاثرہ طالبات کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ سول ہسپتال میں زیرعلاج دسویں جماعت کی طالبہ فرحانہ خالد نے بتایا کہ پہلے جسم میں شدید خارش ہونا شروع ہوگئی اس کے بعد آنکھوں، ناک اور گلے میں جلن ہوئی۔ ’میرا سر بھی چکرا رہا تھا، سانس لینے میں اس وقت بھی تھوڑی تھوڑی مشکل ہو رہی ہے۔‘
سول ہسپتال میں موجود والدین اور رشتہ داروں نے متاثرہ طالبات کو مناسب علاج نہ ملنے کا بھی شکوہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادویات خود خریدنا پڑ رہی ہیں جبکہ ٹیسٹ بھی باہر سے کرارہے ہیں۔ ایک متاثرہ طالبہ کے چچا اعجاز احمد نے بتایا کہ مستونگ سے سرکاری ایمبولینس میں طالبات کو کوئٹہ لایا گیا مگر واپسی پر ہمیں کرائے کی ایمبولینس کا بندوبست کرنا پڑا اورایک ایک گاڑی میں دس دس طالبات کو بٹھایا گیا۔

چار سو سے زائد گھروں پر مشتمل اس گاﺅں کے لوگوں کا عمومی رویہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہے، پرنسپل نازیہ

مستونگ کے علاقے شمس آباد کے رہائشی خورشید احمد کے مطابق ڈاکٹر پہلے کہتے تھے کہ یہ کیڑے مکوڑے کے کاٹنے یا پھر کسی وائرس سے ہوا ہے اب کہہ رہے ہیں کہ کیمیکل سپرے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ’ہمارے ضلع میں یہ تیسرا واقعہ ہے مگر حکومت معاملے کو اب تک سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔‘ انہوں نے بتایا کہ سکولوں میں پراسرار کیمیکل سپرے کے ان واقعات کے بعد مستونگ میں والدین اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجنے سے خوفزدہ ہیں۔ 
سکول کی پرنسپل نازیہ کے مطابق بارہ کمروں پر مشتمل سکول میں 150 سے زائد طالبات پڑھتی ہیں۔ ’چار سو سے زائد گھروں پر مشتمل اس گاﺅں کے لوگوں کا عمومی رویہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں کو خوشی سے سکول بھیجتے ہیں۔‘
ساتویں کلاس کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کو سکول اسمبلی کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوا تاہم جب کلاس روم میں گئیں تو ناگوار بو کی وجہ سے طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔ 
شمس آباد کے ایک اور رہائشی شیر احمد نے بتایا کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کی کبھی مخالفت نہیں ہوئی۔ ’ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ حکومت کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے۔‘
مستونگ و قلات کے قبائلی رہنما سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات کے چیئرمین سینیٹر کبیر احمد محمد شہی نے پراسرار سپرے کے واقعات کو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔ ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلا واقعہ ہوا تو لوگ سمجھے کہ شاید کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے یا پھر کوئی مچھر مار سپرے سے طالبات کی جلد پر ردعمل ہوا ہے مگر چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دوسرے اور پھر تیسرے سکول میں ایسا ہونا کوئی اتفاق نہیں۔
سینیٹر کبیر محمد شہی نے کہا ’تینوں سکولوں میں انتظامیہ یا پھر علاقے کے لوگوں کی جانب سے کوئی سپرے نہیں کیا گیا۔ قریب کے باغات میں بھی زمینداروں نے کوئی سپرے نہیں کیا اس لیے ہمیں یہ یقین ہے کہ صرف لڑکیوں کے سکول کو ہی نشانہ بنانے کے پیچھے باقاعدہ سازش ہے اور یہ سازش لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے روکنے کی ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقہ ہونے کے باوجود مستونگ میں لوگ اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں۔ سکولوں کی انتظامیہ یا پھر علاقے کے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی اس لیے اب تک یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون سا گروہ اس کے پیچھے کارفرما ہے۔ 

سینیٹر کبیر محمد شہی نے کہا کہ متاثرہ طالبات کی تعداد 250 نہیں بلکہ 400 سے زائد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ طالبات کے والدین نے گذشتہ ہفتے مناسب علاج نہ ہونے پر کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بھی بند کیا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں کی ٹیم بھیجی گئی مگروہ اس کی تشخیص ہی نہیں کرسکے کہ کون سا سپرے کیا گیا۔ ’حکومت کو اسلام آباد کے الرجی سینٹر کے ماہرین کو فوری بلانا چاہے۔‘ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت اس معاملے کو اب تک سنجیدہ نہیں لے رہی جو لمحہ فکریہ ہے۔ سینیٹر کبیر محمد شہی نے کہا کہ ’متاثرہ طالبات کی تعداد 250 نہیں بلکہ 400 سے زائد ہے جن میں سے 35 طالبات ایک ہفتے تک کوئٹہ کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں زیرعلاج رہیں۔ ان کی حالت اب تک خراب ہے۔‘
بلوچستان کے سیکریٹری صحت حافظ عبدالماجد کے مطابق محکمہ صحت کے ماہرین کی ٹیم نے ڈاکٹر شوکت بلوچ کی سربراہی میں دو مرتبہ مستونگ کے متاثرہ سکولوں کا دورہ کیا۔ ٹیم میں جلدی امراض کے سپیشلٹ ڈاکٹر، ماہر نفسیات اور جنرل فزیشن شامل تھے جنہوں نے طالبات اور سکول کا معائنہ کیا۔ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں یہ بتایا ہے کہ طالبات جلد متاثر کرنےوالے سپرے کا شکار ہوئی ہیں۔ ’اب یہ سپرے کس نوعیت کا تھا اور کس نے کیا یہ تحقیقات کرنا متعلقہ حکام کا کام ہے۔‘
ڈپٹی کمشنر مستونگ ممتاز کھیتران کے مطابق محکمہ صحت اور محکمہ ماحولیات کے ماہرین کی ٹیم اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ کس نوعیت کا سپرے ہے۔ محکمہ صحت کی ٹیموں نے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کرکے اسلام آباد بھیجے ہیں جہاں سے رپورٹ موصول ہونے کے بعد مزید معلوم ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس پہلو پر کام کر رہے ہیں کہ یہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف گروہ کی کوئی تخریبی حرکت تو نہیں۔
مستونگ کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زمان ترین کے مطابق واقعے کے بعد متاثرہ سکول کو دو دن کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل باقی دو متاثرہ سکولوں کو بھی چار دن کے لیے بند کیا گیا تھا جنہیں اب دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر سرکاری سکولوں میں چوکیدار موجود نہیں جس کی وجہ سے مشکل پیش آتی ہے۔ محکمہ تعلیم کے کوئٹہ میں موجود اعلیٰ حکام نے محکمہ داخلہ بلوچستان کو مستونگ کے سکولوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مراسلہ بھیج دیا ہے۔ 
خیال رہے کہ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ سے متصل دو لاکھ 66 ہزار نفوس پر مشتمل ضلع مستونگ کو بلوچستان میں مذہبی شدت پسندوں کے سب سے زیادہ زیر اثر علاقہ مانا جاتا ہے۔ ماضی میں یہاں کالعدم لشکر جھنگوی اور داعش کے مضبوط گڑھ قائم تھے۔
یہاں صرف گذشتہ دو برس میں قبائلی سیاسی رہنما نواب زدہ سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے اور سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملوں جیسے شدت پسندی کے واقعات میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 

شیئر: