Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانداد کےآنسواورووین رچرڈزکی مایوسی

سنہ 1975 میں انگلینڈ میں پہلے ورلڈ کپ میں پاکستان، ویسٹ انڈیز کے میچ کوکلاسیک قرار دیا جاتا ہے۔
کرکٹ میں جیتی بازی ہارنے کا ریکارڈ رکھا جاتا تو اس میں پاکستان کرکٹ ٹیم سرفہرست ہوتی۔
پاکستانی ٹیم نے ایک دفعہ دنیا کے عظیم ترین بیٹسمین سر ڈان بریڈ مین کی رائے کو اپنی کارکردگی سے غلط ثابت کردیا۔ سنہ 1973میں سڈنی ٹیسٹ میں مضبوط پوزیشن پربریڈمین نے سٹیڈیم میں موجود پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدرعبدالحفیظ کاردار کو جیت کی پیشگی مبارک باد دے ڈالی لیکن پاکستان میچ ہار گیا۔
سنہ 1975 میں انگلینڈ میں ہونے والے پہلے ورلڈ کپ میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے میچ کوکلاسیک اور تھرلر قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں ایک مرحلے پر پاکستان کی جیت یقینی نظر آنے لگی تھی۔ اس مرتبہ دھوکا کھانے کی باری بریڈمین نہیں انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ٹام گریونی کی تھی، جنھوں نے مین آف دی میچ کا فیصلہ کرنا تھا۔ ویسٹ انڈیز کی نویں وکٹ گرنے پرگریونی کو خیال ہوا کہ اب پاکستان باآسانی میچ جیت جائے گا تو وہ میچ چھوڑ کر سٹیڈیم سے کہیں باہر چلے گئے۔ کھیل ختم ہونے پر واپس آئے تو میچ کا نتیجہ جان کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔
ڈیرک مرے نے اینڈی رابرٹس کے ساتھ مل کر جو تاریخ رقم کی تھی، اسے دیکھنے سے محروم رہے تھے، اس لیے انھوں نے سرفراز نواز کو ان کی عمدہ بولنگ پر مین آف دی میچ قرار دے دیا۔

1987 کے ورلڈ کپ میں عبدالقادر کا یادگار چھکا مارنے کے بعد انداز 

برمنگھم میں ہونے والے اس  یادگار میچ میں پاکستان نے ساٹھ اوورز میں 266 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی اننگز کا آغاز ہوا تو اس کے بیٹسمین سرفراز نواز کی بولنگ کوپراعتماد اندازسے کھیلنے میں ناکام نظر آئے۔ 36 کے مجموعی سکور پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ تینوں سرفراز کا شکار بنے۔ کپتان کلائیو لائیڈ کی نصف سنچری سے ٹیم کی پوزیشن قدرے مستحکم ہوئی لیکن وہ بھی 53 رنز بنا کر آﺅٹ ہوگئے۔ان کے بعد وکٹ کیپر ڈیرک مرے نے ٹیم کو کچھ سہارا دیا لیکن دوسرے اینڈ سے وکٹس گرتی رہیں ۔ 203 کے سکور پر نو کھلاڑی آﺅٹ ہوچکے تھے۔
مرے اور اینڈی رابرٹس کو 14 اوورز میں 64 رنز بنانے تھے۔ دونوں دھیرے دھیرے رنز بٹورنے لگے۔ ان سے نجات پانے میں بولر بری طرح ناکام ہوئے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔ آخری وکٹ گرانے کی کوشش میں سرفراز نواز کے اوورز کا کوٹہ پورا ہوگیا۔ دوسرے فاسٹ بولر آصف مسعود  کی دال بھی نہیں گل رہی تھی۔ وہ مہنگے بھی ثابت ہوئے۔ باقی بولرز بھی آخری وکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں استعمال ہوگئے اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ آخری اوور کے لیے کسی ریگولر بولر کے بجائے وسیم حسن راجہ پرتکیہ کرنا پڑا، جنھوں نے اس سے پہلے میچ میں ایک گیند تک نہیں پھینکی تھی۔ مطلوبہ پانچ رنز، چار گیندوں پر بنا کر ویسٹ انڈیز نے میچ جیت لیا۔
اس میچ کی اہم بات یہ تھی کہ ممتاز پاکستانی بیٹسمین جاوید میانداد اور مایہ ناز ویسٹ انڈین اوپنر گورڈن گرینج کا یہ پہلا ون ڈے میچ تھا۔ جاوید میانداد کیریئر کے ابتدائی برسوں میں لیگ سپن بولنگ بھی کرتے تھے۔ اس میچ میں انھوں نے مقررہ کوٹے کے مطابق بارہ اوورز کیے اور کلائیو لائیڈ کی قیمتی وکٹ حاصل کی۔ انھوں نے اپنی آپ بیتی ’کٹنگ ایج‘ میں لکھا ہے اس بدترین شکست سے کھلاڑیوں کو بہت صدمہ ہوا۔ خود انھیں اس ہار کا اتنا رنج تھا کہ وہ دیر تک  آنسو بہاتے رہے۔ 

عبدالقادر کی سب باتیں اپنی جگہ لیکن اس میچ  نے جس بات سے زیادہ اہمیت اختیار کی وہ والش کی سپورٹس مین سپرٹ تھی

پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدرعبدالحفیظ کاردار اس وقت پاکستانی ٹیم کے ساتھ تھے۔ وہ 12ویں کھلاڑی کے ذریعے باربار کپتان ماجد خان کو ہدایات بھجواتے، ایک مرحلے پر وہ اس مداخلتِ بے جا پر اتنے زچ ہوئے کہ نامہ بر کو گراﺅنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کرہاتھ کے اشارے سے واپس لوٹ جانے کا کہا۔ کاردار نے پیغام رسانی پر ہی بس نہ کیا اور وہ باﺅنڈری لائن پر متعین فیلڈروں کو بھی کپتان کی مرضی کے برخلاف ادھر ادھر کرتے رہے۔ آصف اقبال کے ان فٹ ہونے کی وجہ سے ماجد خان اس میچ میں کپتانی کررہے تھے۔ 
اس میچ کے سوا ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے ساتھ جس دوسرے میچ کو تھرلر کہا جاسکتا ہے وہ 1987 میں لاہور میں ہوا۔ دونوں میچوں میں بعض اعتبار سے مماثلت ہے۔ دونوں میں فاتح ٹیم ایک وکٹ سے جیتی۔ فیصلہ آخری اوور میں ہوا۔ وکٹ کیپروں کا اپنی اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار رہا۔ ویسٹ انڈیز کو آخری اوور میں پانچ رنز بنانا تھے اوراس کے بیٹسمینوں کو عام سے بولر وسیم حسن راجہ کا سامنا تھا، پاکستانی کھلاڑیوں نے چودہ رنز بنانے تھے اور بولر کورٹنی والش  تھے، اس لیے پاکستانی ٹیم کی آزمائش زیادہ سخت تھی۔ 
 ویسٹ انڈیز نے 216 رنز بنائے تھے۔ ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بیٹنگ لائن اپ لڑکھڑا گئی۔ وکٹ کیپرسلیم یوسف نے 56 رنز بنا کر میچ میں جان ڈالی لیکن ٹیم جیت سے 15 رنز کی دوری پر تھی کہ وہ آﺅٹ ہوگئے۔ آخری اوور میں جیت کے لیے 14 رنز چاہیے تھے اور ایک وکٹ باقی تھی۔ عبدالقادراور سلیم جعفر وکٹ پر موجود تھے۔ پہلی دو گیندوں پردو رنز بنے، تیسری گیند پر عبدالقادر نے دو رنز لیے، چوتھی گیند پر چھکا لگا کر سب کو حیران کردیا اور اگلی دونوں گیندوں پر دو دو رنز بنا کر اپنی ٹیم کو یادگار فتح دلا دی۔ 
ہارنے کے بعد ویسٹ انڈین کپتان ویوین رچرڈز کے چہرے پر جو مایوسی تھی وہ ناقابل بیان ہے

عبدالقادر سنہ کے 1987 کے عالمی کپ میں 

 عبدالقادرکی نظر میں ان کے چھکے کی اہمیت 1986 میں انڈیا کے خلاف آسٹریلشیا کپ کے فائنل میں، جاوید میانداد کے چھکے سے زیادہ ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ میانداد نے معمولی سے بولر چیتن شرما کو چھکا مارا جبکہ انہیں کورٹنی والش کا سامنا تھا جو آگے چل کر ٹیسٹ کرکٹ میں پانچ سو وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے بولر بنے۔ ایک نکتہ ان کا یہ ہے کہ ویسٹ انڈیز اس زمانے میں مضبوط ترین ٹیم تھی اور میچ بھی ورلڈ کپ کا تھا۔ 
عبدالقادر کا یہ بھی کہنا ہے کہ میانداد نے گیند باﺅنڈری سے باہر پھینکی تو اس وقت ان کا سکور110 تھا اور وہ اچھی طرح سیٹ ہوچکے تھے جبکہ وہ میچ کے آخری مرحلے میں نویں نمبر پر بیٹنگ کرنے گئے تو اس وقت سیٹ ہونے کا سوال ہی نہیں تھا۔ انھیں آخری اوور میں 14، میانداد کو دس رنز بنانے تھے۔
عبدالقادر کی سب باتیں اپنی جگہ لیکن اس میچ  نے جس بات سے زیادہ اہمیت اختیار کی وہ والش کی سپورٹس مین سپرٹ تھی، جس کا مظاہرہ نہ ہوتا تو ویسٹ انڈیز یقیناً میچ جیت جاتا۔ قصہ یہ ہے کہ والش آخری گیند کرنے آئے تو ان کے گیند ڈیلیور کرنے سے پہلے ہی نان سٹرائیکر سلیم جعفرکریز سے باہر نکل گئے، بولر نے انھیں رن آﺅٹ کرنے کے بجائے وارننگ دینے پر اکتفا کیا اور آخری گیند کرانے کے لیے پلٹ گئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ والش کا یہ حسن عمل کرکٹ کے حلقوں میں ہی نہیں عام شائقین کے دلوں میں بھی گھر کرگیا ۔ ان کی مثبت سوچ کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، جس کے باعث ویسٹ انڈیز بھلے سے میچ ہار گیا لیکن کرکٹ جیت گئی۔

شیئر: