Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’معلوم نہیں اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے بجائے قتل کیوں کیا گیا؟‘

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے کہا ہے  انہیں معلوم نہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ رہنما اسامہ بن دلادن کو گرفتار کرنے کے بجائے قتل کیوں کیا گیا تھا۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ ’ ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن پر مامور امریکی فوجیوں کا دعویٰ ہے کہ جس وقت امریکی فوجی اسامہ تک پہنچے اس وقت ان کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔ شاید امریکیوں کو خدشہ ہو کہ وہ گرفتاری کی مزاحمت کریں گے ۔ یہ موقع دینے سے پہلے ہی انہیں قتل کردیا گیا۔‘
 العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسامہ بن لادن کو دفن کرنے کے بجائے سمندر برد اس لیے کیا گیا تاکہ ان کا کوئی مزار نہ بنے۔‘
شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ’ خود امریکیوں کا موقف یہ تھا کہ اگر اسامہ بن دلان کو کسی بھی سرزمین پر دفن کیا گیا تو ان کی قبر شدت پسندوں کے لیے مزار بن جائے گی۔ اس سے شدت پسند وں کو روحانی تقویت پہنچتی رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دفن کرنے کے بجائے سمندر برد کیا گیا۔‘


سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل

شہزادہ ترکی الفیصل نے بتایا کہ 1998میں شاہ عبد اللہ کے حکم پر وہ اسامہ بن دلادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ لے کر ملا عمر سے ملاقات کرنے افغانستان گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے ساتھ رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ شیخ عبد اللہ الترکی اور پاکستان کے اس وقت انٹیلی جنس کے سربراہ کو اپنے ہمراہ لے گیا۔ ہماری ملاقات ملا عمر سے ہوئی اور انہوں نے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے پر غور کرنے کے لیے مہلت مانگی۔ بعد ازاں میں نے تجویز دی کہ سعودی اور افغانی علما کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تو اسامہ بن دلادن کو حوالے کرنے کے مسئلے پر غور کرے ، پھر علما کی کمیٹی جو فیصلہ کرے گی ہم دونوں کو منظور ہوگا۔ اس پرملا عمر نے رضا مندی ظاہر کردی۔‘



 سابق امریکی صدر اوباما اوردیگر حکام نے ایبٹ آباد کا آپریشن براہ راست دیکھا (فوٹو:اے ایف پی)

شہزادہ ترکی الفیصل نے مزید بتایا کہ ’بعد ازاں تنزانیا اور نیروبی میں امریکی سفارتخانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ صاف ظاہر تھا کہ ان دھماکوں کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ ہے۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں کو میزائل نشانہ بنایا۔ اس واقعہ کے بعد میں اسامہ بن دلان کو حوالے کرنے کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر لے کر ملا عمر کے پاس پہنچا مگر اس مرتبہ اس کا لہجہ تبدیل ہوچکا تھا۔ انہوں نے بن دلادن کو حوالے کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے انہیں متنبہ کیا کہ اس فیصلے سے طالبان حکومت اور افغانستان کو شدید نقصان ہوگا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے طالبان حکومت سے تعلقات ختم کردیئے۔‘

شیئر: