Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستانی نمک کو عزت دو‘ مگر یہ عزت کیسے ملے گی؟

سوشل میڈیا پر گ‍ذشتہ کچھ دنوں سے صارفین کھیوڑہ کے گلابی نمک کی تعریفوں میں مگن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خام نمک کی برآمد پر پابندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت ٹوئٹر پر ’ہمارا نمک ہمارا سرمایہ‘ کے نام سے ایک ٹرینڈ چل رہا ہے جس میں اب تک 70 ہزار سے زائد صارفین حصہ لے چکے ہیں۔
ٹوئٹر صارفین ایک طرف جہاں جہلم میں کھیوڑہ کی پہاڑیوں سے نکلنے والے گلابی نمک کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں تو دوسری طرف یہ مہم بھی چلائی جا رہی ہے کہ انڈیا کو ’کوڑیوں کے بھاؤ‘ نمک کی فروخت بند کی جائے اور پاکستان نمک کو خود پروسس کرتے ہوئے یورپی ممالک کو بیچ کر زرمبادلہ کمائے۔
اور تو اور اس بحث کا حصہ بنتے ہوئے جہلم سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ انڈیا کو نمک کی سستے داموں فروخت کے حوالے سے وہ تحقیقات کا حکم دے چکے ہیں اور رپورٹ جلد سب کے سامنے پیش کی جائے گی۔

ساتھ ہی فواد چوہدری یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بظاہر یہ مہم مبالغہ آرائی پر مبنی لگتی ہے لیکن وہ اس بارے میں حتمی رائے اسی وقت دیں گے جب انہیں حقائق کا علم ہوگا۔
لیکن لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آخر وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کون سے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نمک کی برآمد کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے؟
سوشل میڈیا پر اس مہم کا آغاز ’ٹیم پاک پنک سالٹ‘ نامی ایک ہینڈل نے کیا ہے جس کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اپنا نمک خود پروسس کرکے دنیا بھر کو بیچے تو ملک سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔

’ٹیم پاک پنک سالٹ‘ نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت معدنیات پر توجہ دے اور ان سے ایسے ہی پیسے کمائے جیسے دوسرے ملک ہم ہی سے لے کر کماتے ہیں۔‘
سمندر پار پاکستانی بھی اس مہم کا بھرپور حصہ بنتے ہوئے مختلف ممالک میں نمک کی قیمتوں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے زور دے رہے ہیں کہ پاکستان نمک کو اپنا برانڈ بنائے۔
شاہنواز چوہدری پی ٹی آئی نامی ایک صارف نے نمک کی پرائس ٹیگز کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ مصنوعات انڈیا ہم سے برآمد کردہ نمک سے بناتا ہے۔ بہتر ہے کہ پاکستان ایسی مصنوعات خود بناتے ہوئے برآمدات بڑھائے اور اپنی معیشت اور لوگوں کو مضبوط کرے۔‘

اسی طرح شعیب ملک نام کے ایک ٹوئٹر ہینڈل نے پیک کیے ہوئے نمک کی تصویر شیئر کرتے ہوئے  کہا کہ ’حتٰی کہ اسرائیل بھی انڈیا کو مڈل پارٹی بنا کر ہمالیہ کی پہاڑیوں کا نمک استعمال کر رہا ہے۔
رانا عمران نامی صارف تو اعدادوشمار نکال لائے اور لکھا کہ ’پاکستان میں دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہم نمک کی برآمد میں دنیا کے 20 سرفہرست ممالک کی لسٹ میں بھی شامل نہیں۔ حیران کن طور پر انڈیا پاکستان سے نمک خرید کر اس لسٹ میں ساتویں نمبر پر ہے۔‘

جب انڈیا کی بات ہو تو پاکستانی صارفین کیسے چپ رہ سکتے ہیں۔ اقصٰی کنول نامی ایک صارف نے بھی اعدادوشمار کا سہارا لیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان نمک کی برآمدات بڑھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
اقصٰی نے لکھا کہ ’عالمی مارکیٹ میں لاکھوں ڈالرز مالیت کا حامل پاکستان کا گلابی نمک انڈیا انتہائی سستے داموں درآمد کرکے دنیا کو اپنے لیبل کے ساتھ بیچ رہا ہے۔ ایمزون پر اس کی فی کلو قیمت 12 امریکی ڈالر ہے، انڈیا کو اس کی برآمد بند کرو۔‘  
شاید یہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے لیگی نعرے کی مقبولیت کا اثر تھا کہ علی نامی ایک صارف نے یہ تک کہہ ڈالا کہ ’نمک کو عزت دو۔‘
علی نے یہ بھی کہا کہ ’انڈیا ہم سے تقریباً مفت نمک لے کر مارکیٹ میں 19 یورو فی کلو کے حساب سے بیچ رہا ہے۔‘

سعد علی نامی ایک صارف میدان میں کودے اور اپنے فالورز کو ایک لمبا لیکچر دے ڈالا۔
انہوں نے لکھا کہ ’دوستو اپنے گھر میں اگر فاقے ہوں تو کیا گھر میں پڑا ہوا کھانا کوڑیوں کے بھاؤ بیچا جاتا ہے؟ کبھی نہیں یہ بیوقوفی ہے کوئی ایسا نہیں کرے گا۔ ایسا ہی حال ہمارے نمک کا ہے، اپنا خزانہ خالی ہے اور ہیرے جیسا نمک کوڑیوں کے بھاؤ انڈیا کو دیا جا رہا ہے تاکہ اس کا خزانہ بھرے۔‘

سعد نے یہ بھی لکھا کہ ’نمک تو نمک ان کانوں سے نکلنے والا پانی بھی نایاب ہے جسے براٸن سلوشن کہا جاتا ہے ہم اس نمکین پانی سے بھی اربوں کما سکتے ہیں مگر افسوس کہ یہ پانی بھی کوڑیوں کے بھاؤ دیا جاتا ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے بس۔‘

پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن والے کیا کہتے ہیں؟

پاکستان میں کھیوڑہ سالٹ ماننز کے پروجیکٹ ڈائریکٹر تنویر اشرف نے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کو نمک کی درآمد بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ اگر پاکستان اپنا نمک برآمد نہیں کرے گا تو یہ ملک میں پڑا پڑا خراب ہو جائے گا۔
انہوں نے فواد چوہدری اور دیگر حکومتی اراکین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کے پاس ناتجربہ کار لوگ ہیں جو بغیر تحقیق کے کوئی بھی بات کرتے ہیں اور انکوائریاں شروع کردی جاتی ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ ملک میں فیکٹریاں لگائے، لوگوں کی تربیت کرے اور کاروباری لوگوں کو قرضے دے تاکہ خام نمک یہاں پروسس ہو اور پھر پاکستان خود اسے ایکسپورٹ کرے مگر یہ سب کون کرے گا۔‘
تنویر کے بقول ایک اندازے کے مطابق پاکستان انڈیا کو چار روپے 80 پیسے فی کلو کے حساب سے نمک فروخت کرتا ہے اور انڈیا یہ نمک یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں ساڑھے چار سے پانچ سو روپے میں فروخت کرتا ہے مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انڈیا نمک کو پروسس کرنے پر بھی پیسے لگاتا ہے، وہاں فیکٹریاں ہیں، کاریگر ہیں۔ پاکستان میں کیا ہے؟ یہاں نہ انڈسٹری ہے اور نہ ہی ہنر مند لیبر۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان سے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کو بھی خام نمک برآمد کیا جاتا ہے، اگر ہم نے محنت کی ہوتی تو لوگ ہماری چیز سے پیسے نہ کماتے۔‘

شیئر: