Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

3560 ارب روپے خسارے کا وفاقی بجٹ پیش، اپوزیشن کا احتجاج

پاکستان کے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے آئندہ مالی سال کے لیے سات ہزار بائیس ارب روپے کا بجٹ پیش کیا۔
اس بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کا حجم 6192 ارب 90 کروڑ روپے, پنشن کی مد میں اخراجات کا تخمینہ 421ارب روپے اور سود کی ادائیگیوں کے لیے 2891 ارب 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
منگل کو بجٹ کے موقعے پر وزیراعظم عمران خان ایوان میں موجود تھے، جبکہ حزب اختلاف کے اراکین سیاہ پٹیاں باندھ کر آئیں۔
حماد اظہر نے بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ ٹیکس کی وصولیوں کے نیٹ کو بڑھائے بغیر گزارہ مشکل ہے۔ ان کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس آمدن کا تخمینہ پانچ کروڑ 82 لاکھ 21 ہزار چھ سو روپے ہے جو کہ موجودہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ ہے، اس میں سے ایف بی آر کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 12 فیصد ہوگا۔

وزیر مملکت حماد اظہر نے مزید کہا کہ ’22 کروڑ کی آبادی میں سے صرف 19 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور ان میں بھی ٹیکس جمع کروانے والوں کی تعداد 13 لاکھ ہے،پاکستان میں جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح 12 فیصد ہے جو دنیا میں کم ترین شرح ہے۔‘ 
اپنے بجٹ تقریر میں وزیر مملکت برائے ریونیو نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کے ایجنڈے پر علم پیرا ہیں۔ سونے اور چاندی کے زیورات پر بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی۔
انھوں نے اس کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ فوج کی جانب سے پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے کہ آئندہ مالی بجٹ میں دفاعی اخراجات میں اضافہ نہیں لیا جائے گا۔ قومی اسمبلی کو وزیر مملکت برائے ریونیو نے بتایا کہ دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رہے گا.
وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا کہ گریڈ ایک سے سولہ کےریٹائرد ملازمین کی پینشن میں دس فیصد اضافہ، گریڈ سترہ سے بیس میں پانچ فیصد اضافہ اور  گریڈ اکیس سے بائیس ملازمین پینشن میں اضافہ نہیں ہو۔
ان کا کہنا تھا زرعی شعبے کے بارے میں کہ  4.4 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ وزیر مملکت کے مطابق  توانائی کے لیے 80 ارب اور آبی وسائل کے لیے 70 ارب تجویز کیے۔
انہوں نے کہا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہماری اولین ترجیح ہے ۔


مالی سال 2019-20 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا (فوٹو پی آئی ڈی)

بجٹ تقریر میں کہا گیا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی زمین حاصل کرنے کے لیے 20 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے، اور داسو ڈیم کے لیے پچپن ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
بجٹ میں سول حکومت کے اخراجات 460 ارب  سے کم کر کے 437 کر دیا گیا ہے۔
وزیر مملکت حماد اظہر کے مطابق کابینہ نے اپنی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے اراکین نے بجٹ سیشن کے دوران پلے کارڈز اٹھائے جس پر آئی ایم ایف بجٹ نامنظور کے نعرے درج تھے۔
  بجٹ تقریر کے مطابق بجٹ کا خسارہ 1560 ارب ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب اور بھاشا کے لیے 20 ارب مختص کیے گئے۔
وزیر مملکت حماد اظہر نے بجٹ تقریر میں کہا کہ بجلی چوری کے خلاف منظم مہم شروع کی ہے۔ اس سے 80 ارب روپے وصول ہوئے۔
بجٹ تقریر کے مطابق چھ لاکھ سالانہ سے زائد آمدن پر  ٹیکس سلیب کی تعدا گیارہ کر دی گئی۔
تنخواہ دار طبقے کے لیے قابل  ٹیکس آمدن کی حد چھ لاکھ مقرر اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے قابل  ٹیکس آمدن کی حد چار لاکھ مقرر کی گئی۔
بجٹ تقریر کے مطابق نان فائلرز پر جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کر دی گئی۔
بجٹ تقریر میں کہا گیا کہ رواں برس 8238.1 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکلہ گذشتہ برس  کے مالی بجٹ سے 38.9 فیصد زیادہ ہے،اس میں دستیاب رقم 7899.1 ارب ہے جو کہ گذشتہ برس 4917.2 ارب روپے تھی۔
حکومت کو براہ راست ریوینو 3462.1 ارب ہے جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں 12.8 فیصد زیادہ ہے۔
مزدوروں کے لیے کم سے کم اجرت سترہ ہزار پانچ سو مقرر کی گئی۔
بجٹ تقریر کے دوران ہی اپوزیشن ارکان نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑیں جبکہ اپوزیشن کا احتجاج نظر انداز کرتے ہوئے وزیر مملکت نے بجٹ تقریر جاری رکھی۔


مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے گذشتہ روز اقتصادی سروے رپورٹ پیش کی (فوٹو: اے ایف پی)

 وزیر مملکت نے کہا کہ 80 ہزار مستحق لوگوں کو ہر ماہ بلاسود قرض دیے جائیں گے۔
بجٹ تقریر کے مطابق دو ہزار سی سی گاڑی پر سات فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد، ایک ہزار سی سی گاڑی دو اعشاریہ پانچ فیصد ڈیوٹی، گھی، کوکنگ آئل پر  سترہ فیصد ٹیکس، خشک دودھ، پنیر پر دس فیصد ٹیکس اور کولڈ ڈرنکس پر ڈیوٹی 11.5 سے بڑھا کر  13فیصد  کر دی گئی۔
صحت سہولت پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں ملک کے 42 اضلاع میں 32 لاکھ غریب خاندانوں کو، اگلے مرحلے میں ڈیڑھ کروڑ انتہائی غریب اور پسماندہ خاندانوں تک پھیلایا جائے گا۔ اس پروگرام کا اطلاق پاکستان کے تمام اضلاع بشمول صلع تھرپارکر اور خیبر پختونخواہ کے نئے اضلاع پر بھی ہوگا۔ اس پروگرام کے تحت غریبوں کو صحت کارڈ فراہم کیے جاتے ہیں جس کے تحت  وہ پورے ملک سے منتخب کردہ 270 ہسپتالوں میں سے کسی میں بھی 720،000 روپے سالانہ تک کا علاج کرواسکتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے اپنے تقریر میں قومی اسمبلی کے سیشن کو بتایا کہ فاٹا اور پاٹا کو انضمام کے بعد سپلائز کے حوالے سے پانچ سالوں کے لیے استثنیٰ حاصل ہو گا تاکہ معاشی سرگرمیاں بڑھ سکیں۔ صنعتی خام مال اور پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی ان علاقوں کو ٹیکس میں اسثنیٰ حاصل ہوگی۔ ان علاقوں میں تمام گھریلو اور کاروباری صارفین اور 31 مئی 2018 سے پہلے قائم ہونے والی صنعتوں کو بجلی کی فراہمی پر سیلز ٹیکس میں استثنیٰ دی جائے گی۔ یہ اطلاق سٹیل اور گھی ملوں پر نہیں ہو گا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس 14 جون تک ملتوی کر دیا گیا۔

شیئر: