Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں ٹڈیوں کا حملہ، کروڑوں روپے کے نقصان کا خدشہ

فائل فوٹو: اے ایف پی
یمن، سعودی عرب اور ایران میں تباہی مچانے کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کئی اضلاع ٹڈی دل کے حملوں کی لپیٹ میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے متنبہ کیا ہے کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ٹڈی دل کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے ۔
ایف اے او کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق معمول سے چھ سے سات ہفتے پہلے ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں مئی میں جزائر عرب اور جنوب مشرقی ایشیا میں سازگار موسمی حالات ملنے پر ٹڈی دل کی افزائش میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔
مشرقی یمن سے غول اور لشکر کی صورت میں  سعودی عرب ، اردن، کویت، مصر اورسوڈان ہجرت کرنے والے ٹڈی دل نے بعد میں ایران، پاکستان اور انڈیا کے صحرائی علاقوں کا رخ کیا ہے اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان سمیت ایران کے جنوب مشرقی صوبوں میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 
ایرانی کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ساحلی اور صحرائی علاقوں میں تقریباً پانچ لاکھ 32 ہزار ہیکٹرز(تقریباً 13لاکھ 14ہزار ایکڑ) زرعی اراضی پر ٹڈی دل سے نمٹا گیا۔ ایران کی کرائسز مینجمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اسماعیل نجار نے بتایا کہ ہمسایہ ملک سے داخل ہونے والے تقریباً 153بڑے جتھوں کو ختم کیا گیا۔ ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے فضائی اور زمینی کیمیکل سپرے کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل ٹڈی دل کے لشکر سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں رپورٹ ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق سعودی عرب میں 75 ہزار ہیکٹر اراضی پر ٹڈی دل کو ’ٹریٹ‘ کیا گیا۔
ایران سے ٹڈی دل ہجرت کرکے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی وصحرائی علاقوں گوادر، کیچ ،پنجگور، خاران، واشک، چاغی اور نوشکی میں درختوں اور فصلوں پر حملہ آور ہوئے ہیں۔

سعودی عرب ، اردن، کویت، مصر اور سوڈان ہجرت کرنے والے ٹڈی دل نے بعد میں ایران، پاکستان اور انڈیا کے صحرائی علاقوں کا رخ کیا

بلوچستان میں ٹڈی دل نے ان علاقوں کو متاثر کیا ہے جو گذشتہ ایک دہائی سے خشک سالی کا شکار تھے تاہم رواں سال اچھی بارشیں ہونے کی وجہ سے خشک سالی کے اثرات کم ہونے پر فصلیں اچھی آنے پر زمیندار خوش تھے مگر ٹڈی دل کے حملوں نے ان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
ایران سے ملحقہ ضلع واشک میں زمیندار ایکشن کمیٹی کے ضلعی سربراہ صغیر احمد نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ واشک میں گذشتہ ایک مہینے سے رزکت، دمگ، شمسی، بوڈکو، زیارت، شاہو گیڑی میں ٹڈی دل کی یلغار کے سامنے زمیندار بے بس ہیں وہ اپنی آنکھوں کے سامنے تربوز، خربوزے، پیاز اور زیرے کی تیار فصلوں کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
ان کے بقول ’اب ٹڈی دل کے لشکر واشک کے علاقوں ناگ، گورگی، باغ سوپک اور حسین زئی پہنچ گئے ہیں مگر سرکاری سطح پر کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے۔ زمینداروں کی ہزاروں ایکڑ پر پھیلی تیار فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پلانٹ پروٹیکشن اور محکمہ زراعت کو بار بار درخواست دینے کے باوجود ہنگامی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ 20 دن پہلے دو گاڑیاں سپرے کے لیے فراہم کی گئیں مگر ڈسٹرکٹ واشک رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے بڑے ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ 43 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ضلع کو دو گاڑیوں سے کور نہیں کیا جا سکتا۔
صغیر احمد نے 90 کی دہائی میں ٹڈی دل کا اس طرز کا حملہ دیکھا تھا۔ ان کے مطابق مکران، واشک، خاران اور چاغی سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقے گذشتہ 12 سالوں سے خشک سالی کی لیپٹ میں تھے ۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ آمدن زراعت اور گلہ بانی ہے۔ خشک سالی کے باعث زمیندار اور گلہ بانی سے وابستہ افراد نان شبینہ کے محتاج ہو گئے تھے۔
’ اس سال اچھی بارشیں ہوئیں اور خشک سالی کے اثرات تھوڑے کم ہوئے تو زمیندار کافی خوش تھے مگر اب ٹڈی دل کے حملوں نے سب کچھ تباہ کردیا۔ زمینداروں نے قرض لے کر سولر سسٹم لگائے۔ اکثر زمینداروں نے آڑھتیوں سے فصلوں کی ایڈوانس رقوم لے کر خرچ بھی کردی ہیں اب وہ فصلیں تباہ ہونے پر آڑھتیوں کی جانب سے رقوم کی واپسی کے مطالبے پر پریشان ہیں۔‘
پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فلک ناز کے مطابق پاکستان میں 1997 کے بعد پہلی مرتبہ ٹڈی دل نے اس شدت سے یلغار کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماہ رمضان سے قبل گوادر اور کیچ کے ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں گوادر، پسنی، تربت، دشت کے علاوہ کراچی سے متصل ضلع لسبیلہ کے علاقے اوتھل اور بیلہ میں ٹڈی دل کی بڑی تعداد میں موجودگی کی رپورٹس ملیں جس پر ہم نے متاثرہ علاقوں میں ٹیمیں بھیجیں۔ 


’اس سال اچھی بارشیں ہوئیں اور خشک سالی کے اثرات تھوڑے کم ہوئے مگر اب ٹڈی دل کے حملوں نے سب کچھ تباہ کردیا‘

’ہماری چار ٹیموں نے عید سے قبل ڈیڑھ ماہ تک ڈھائی ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر سپرے کیا جس سے ان علاقوں میں ٹڈی دل کے حملوں کا تدارک ممکن بنایا گیا۔ ہماری ٹیموں نے سکیورٹی خطرات، سخت گرمی اور رمضان میں بھی اپنا کام جاری رکھا ۔‘
انہوں نے بتایا کہ ماہ رمضان کے دوران ایرانی سرحد سے ملحقہ ضلع واشک سے بھی ٹڈی دل کے حملوں کی اطلاع موصول ہوئی جس پر ہم نے ایک گاڑی سپرے  کے لیے بھیجی ۔انہوں نے کہا کہ عید کے دنوں میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین اور ضلع خاران میں بھی ٹڈی دل نے حملے کیے ۔ دالبندین میں ہماری ٹیم نے اب تک پانچ سو ایکڑ اراضی پر سپرے کیا۔
ڈاکٹر فلک ناز کے مطابق ٹڈی دل نے زیادہ نقصان ایرانی سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں پہنچایا ہے۔ ٹڈی دل کے خاتمے اور انہیں فصلوں کو مزید نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے فضائی سپرے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ سول ایوی ایشن اور سکیورٹی ایجنسیوں کو درخواست بھیج دی گئی ہے مگر اب تک ان کی جانب سے فضائی سپرے کےلیے اجازت نہیں ملی۔ 
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت سے سپرے کی مد میں پینسٹھ لاکھ روپے فنڈز کی درخواست کی ہے۔ وسائل اور عملے کی کمی کے سبب بھی مشکلات کا سامنا ہے۔‘
پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے بلوچستان میں ڈائریکٹر ڈاکٹر عارف شاہ نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ اس صورتحال سے نمٹنا فیڈرل پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا ’ہم سے ڈیزل اور دیگر اخراجات کی مد میں مدد مانگی ہے مگر ہمارے پاس خود اس صورتحال سے نمٹنے کے لیےکوئی رقم موجود نہیں۔‘ 
’اب صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے تو ہم نے اپنے وفاقی محکمے کو اپنے عملے کی خدمات بھی پیش کی ہیں۔ ہم نے صوبائی حکومت کے متعلقہ حکام کو درخواست کردی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں سپرے کا کام پھیلانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔‘
ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق ہمیں بروقت سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں جس کی وجہ سے ٹڈی دل مزید پھیل رہے ہیں۔ اب یہ چاغی اور خاران سے نوشکی تک پہنچ چکے ہیں۔ سبی سے بھی ٹڈی دل کے حملوں کی رپورٹ ملی ہے۔ ہم نے سبی اور نصیرآباد ڈویژن میں اپنی ٹیموں کو چوکنا کردیا ہے۔
اس وقت صرف ایک گاڑی دالبندین میں کام کررہی ہے اگر اس سست روی سے کام جاری رہا اور مزید اقدامات نہ کیے گئے تو مزید علاقوں میں فصلوں کو نقصان ہوسکتا ہے ۔اس وقت بھی تدارک کے لیے اقدامات میں تاخیر سے متاثرہ علاقوں میں تباہی مچ گئی ہے۔ ایران نے تھوڑی تاخیر کی جس کی وجہ سے یہ پاکستان آئے۔ بلوچستان میں اقدامات میں تاخیر کی وجہ سے اب ٹڈی دل کے حملے سندھ اور پنجاب میں رپورٹ ہورہے ہیں اگر وہاں پر بھی ہنگامی اقدامات نہ ہوئے تو پھر یہ انڈیا تک پہنچ جائیں گے۔

عرب ممالک میں ٹڈیوں کو شوق سے پکا کر کھایا جاتا ہے کیونکہ اس میں پروٹین، آئرن، کیلشیم، سوڈیم وغیرہ پایا جاتا ہے

انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر وسائل اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے نجی کمپنیوں سے بھی مدد طلب کی ہے جن میں سے ایک نے چھ سو سپرے پمپ مفت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق زمینداروں نے کروڑوں روپے کے نقصان کا دعویٰ کیا ہے مگر نقصان کا صحیح اندازہ کراپ رپورٹنگ سروسز فراہم کرنے والے سرکاری اداروں کی سروے رپورٹ ملنے کے بعد ہوسکے گا۔
ضلع خاران کے علاقے کلی خان جان کے رہائشی عبدالرحمان نے بتایا کہ ہم نہ چل سکتے ہیں نہ گھروں میں سو سکتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا میں ٹڈی دل گرتے ہیں بچے بھی ڈر کی وجہ سے گھر سے نہیں نکلتے ۔ بچوں نے عید بھی کمروں میں گزاری۔ دالبندین ایئرپورٹ کے قریب کلی نور بخش بڑیچ کے زمیندار رزاق بڑیچ نے بتایا کہ ہمارے ریگستانی علاقے کے تربوز اور خربوزے پورے پاکستان میں پسند کیے جاتے ہیں ہم ایران اور افغانستان بھی سپلائی کرتے تھے مگر ہمارے تربوز اور خربوزے کی تیار فصل تباہ ہوگئی۔ انگور کے زیر کاشت باغات بھی تباہ ہوگئے ہیں ۔
ٹڈی دل سے جہاں لوگ خوفزدہ ہوئے وہی کچھ لوگوں نے انہیں زندہ پکڑ کر اپنی خوراک کا بھی حصہ بنایا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں ٹڈیوں کو شوق سے پکا کر کھایا جاتا ہے کیونکہ ان میں پروٹین ، آئرن، کیلشیم، سوڈیم وغیرہ پایا جاتا ہے۔ ٹڈیاں کھانے کے شوقین انہیں ’خشکی کا جھینگا ‘کہتے ہیں۔ 

ٹڈی دل کس طرح حملہ آور ہوتے ہیں؟ 

پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق ٹڈی دل دو صورتوں میں حملہ آور ہوتے ہیں، جو انفرادی صورت میں ہوتے ہیں انہیں solitary کہتے ہیں اور جو غول یا جتھے کی صورت میں ہوتے ہیں انہیں Gregarious کہتے ہیں۔ 
غول کی صورت میں موجود ٹڈی دل ہر درخت اور سبزے کو کھاکر ختم کردیتے ہیں جبکہ انفرادی صورت میں موجود ٹڈی دل فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بلوچستان میں یہ انفرادی اور غول دونوں صورتوں میں موجود ہیں اس لیے یہاں فضائی سپرے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے ذریعے سپرے کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ ٹڈی دل کے بڑے غول یا جتھے بعض اوقات کئی مربع کلومیٹر علاقے پر پھیلے ہوتے ہیں یہ علاقے میں سبزے اور فصلوں کو تباہ کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل لشکر کی صورت میں اپنے پروں کے ذریعے بہت لمبا سفر کرسکتے ہیں اس لیے یہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک آسانی سے پھیلتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹڈی دل جہاں پڑاﺅ کرتے ہیں وہاں مناسب جگہ ملنے پر انڈے دینا شروع کردیتے ہیں ۔ اپنی خوراک حاصل کرنے اور انڈے دینے کے بعد ٹڈی دل آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نمی اور گرمی ملنے پر انڈوں سے بچے بھی نکلنا شروع ہوجاتے ہیں جس سے ٹڈی دل کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ 
پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فلک نازکے مطابق بلوچستان میں جون کے آخر تک ٹڈی دل کی افزائش کا دورانیہ ختم ہو جائے گا جس کے بعد صوبے میں ٹڈی دل کے مزید حملوں کا خطرہ ٹل جائے گا تاہم ملک کے گرم علاقے یعنی سمر سیزن ایریا کہنے والے پنجاب اور سندھ کے صحرائی علاقوں چولستان اور تھرپارکر میں ٹڈی دل کی افزائش بڑھ سکتی ہے۔ ’اس وقت تک رحیم یار خان میں پاک انڈیا سرحدی علاقے اور نارا صحرا میں ٹڈی دل کی موجودگی رپورٹ ہوئی ہے۔ ہم نے رحیم یار خان، خیبر پور نارا صحرا اور میر پور خاص میں ٹیمیں بھیج دی ہیں۔‘ 

شیئر: