Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وسعت اللہ خان کا کالم: کُرتا شاندار مگر پاجامہ غائب

اس وقت پارلیمنٹ کے حلق میں نئے مالی سال کے بجٹ کی ہڈی اٹکی ہوئی ہے۔ بجٹ پر بحث کے پردے میں حزبِ اقتدار اور اختلاف اپنے اپنے ایجنڈے کی لنگوٹ پہنے ملاکھڑا  کھیل رہے ہیں۔
کئی مدیں سمجھ میں نہیں آ رہیں۔ جیسے سائنس و ٹیکنالوجی کا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے مگر اعلیٰ تعلیم  و تحقیق کا بجٹ کم کر دیا گیا ہے۔ جن نوجوانوں کو بیرونِ ملک سکالرشپس پر بھیجا گیا تھا ان میں سے اکثر کی توجہ اصل کام کے بجائے اس پر ہے کہ سکالرشپ کی اگلی قسط کب پاکستان سے ریلیز ہو کر ان تک پہنچے گی تاکہ وہ کماحقہ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔
نئے بجٹ میں پرائمری تعلیم  کو کارآمد اور مؤثر بنانے کے لیے کوئی نئی تجویز نہیں۔ چنانچہ یہ توقع رکھنا محض وقت ضائع کرنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم  پر ’نئی ریاستِ مدینہ‘ میں ’پرانی ریاستِ مدینہ‘  کے برابر زور دیا جائے گا۔
خود سے پوچھیے کہ اس دنیا کے دو سو سے زائد ممالک  میں صرف چھ ملک (فن لینڈ، ناروے، آئس لینڈ، لکسمبرگ، لیچنسٹائین اور اینڈورا) ہی ایسے کیوں ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح تعلیم برابر یعنی سو فیصد ہے۔
خود ہی سے پوچھیے کہ مذہبِ اسلام  میں بلا جنسی تفریق سب سے زیادہ زور حصولِ تعلیم پر ہی کیوں دیا گیا؟ کیا کوئی ایسا متبادل ہے کہ بنا تعلیم کوئی بھی زن و مرد قرآن پڑھ اور سمجھ سکے۔ اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کا صرف جبلی ہی نہیں عقلی شعور بھی رکھ سکے۔ محض جبلی شعور تو جانور بھی رکھتے ہیں۔
آخر یہ کیوں کہا گیا کہ کائنات کے اسرار و رموز پر غور و تدبر کرو، ان کی حقیقت تک پہنچو اور انہیں مسخر کرو۔ کیا یہ کام ایک ان پڑھ معاشرہ کرسکتا ہے؟ اور کیا معاشرہ اپنے آدھے حصے کو ان پڑھ رکھ کر اور آدھے حصے کو تعلیم دے کر سوچ اور زندگی میں توازن پیدا کر سکتا ہے؟
اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو پھر تو مسئلہ ہی حل ہو گیا لیکن اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ان اسباب کو سمجھ کر دور کرنے کی انفرادی و اجتماعی کوشش کو جنم دیجیے۔

صرف چھ ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح تعلیم برابر برابر یعنی سو فیصد ہے

کیا یہ سن کے اچھا لگتا ہے کہ  ایسے 10 ممالک جن میں عورتوں کی تعلیم کا تناسب سب سے کم ہے ان میں سے آٹھ ممالک مسلم اکثریتی ہیں (افغانستان 12 فیصد، نائجر 15 فیصد ، مالی 20 فیصد، برکینو فاسو 21 فیصد، چاڈ 25 فیصد، گنی 30 فیصد، گیمبیا 40 فیصد، پاکستان 42 فیصد)۔
اگر عالمِ اسلام کی واحد جوہری قوت اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرے بڑے مسلمان ملک پاکستان پر ہی فوکس کیا جائے تو تعلیم کے معاملے میں عموماً اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بالخصوص حالات خاصے مایوس کن ہیں۔
ہر حکومت نئے نئے جوش میں یہ وعدہ کر بیٹھتی ہے کہ وہ تعلیم کی اہمیت سے بدرجہ اتم واقف ہے لہٰذا سرتوڑ کوشش کی جائے گی کہ تعلیم کا بجٹ ڈیڑھ پونے دو فیصد سے بڑھا کر کل قومی آمدنی کے چار فیصد تک لایا جائے جو کہ اقوامِ متحدہ کی کم ازکم تعلیمی بجٹ کی سفارش کے مطابق ہو مگر 73 برس گزرنے کے بعد بھی یہ خواب کوئی بھی سویلین یا فوجی حکومت پورا نہ کر سکی۔
بہرحال جو بھی بجٹ منظور ہوتا ہے اس کا بیشتر حصہ بنیادی تعلیم پر لگانے کے بجائے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر خرچ ہو جاتا ہے اور اس میں سے بھی بیشتر تنخواہوں اور غیر ترقیاتی تعلیمی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔
بجٹ کا ایک بڑا حصہ پرائمری کے بجائے اعلی تعلیم پر خرچ کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ قمیض سلوا لیں مگر پاجامہ سلوانا بھول جائیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم کے لیے اندرونی اور غیرملکی مدد کے باوجود حقیقی خواندگی کا تناسب بڑھ کے نہیں دے رہا۔

پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد سکول جاتی ہی نہیں ہے

پاکستان کی سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں ان میں سوائے افغانستان کے دیگر تمام ممالک میں خواندگی کا تناسب پاکستان سے زیادہ ہے۔ جیسے پاکستان کے 50 فیصد خواندگی کے دعوے کے مقابلے میں چین میں یہ تناسب 93 فیصد، ایران میں 81 فیصد اور بھارت میں ساڑھے 65 فیصد ہے۔ سارک کی سطح پر اگر دیکھا جائے تو بھوٹان اور افغانستان چھوڑ کے باقی سارک ممالک پاکستان سے زیادہ  خواندہ ہے۔
اگر ان 10 ممالک کی فہرست بنائی جائے جہاں سب سے زیادہ بچے پرائمری سکول سے باہر گھوم رہے ہیں تو اس فہرست میں پاکستان، افغانستان اور نائجر کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت یہاں پانچ برس کی عمر کے 50 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں اور ان میں لگ بھگ 30 لاکھ بچیاں ہیں۔ غربت اور بدامنی ان بچوں کو تعلیم سے روکنے میں سب سے بڑا عامل کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں اگر تعلیمی ترقی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسماعیلی اور ہزارہ کمیونٹی میں خواندگی کا تناسب 90 فیصد سے اوپر ہے لیکن حالیہ برسوں میں ہزارہ کمیونٹی کی اکثر لڑکیاں جان کے خوف سے کالجوں یونیورسٹیوں تک بھی نہیں جا پا رہیں اور گھر میں بیٹھ گئی ہیں۔

پاکستان میں سرکاری سکولوں کی بہتری کے مطالبات ہر برس سامنے آتے ہیں

قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب پہلے ہی پاکستان کے دیگر حصوں کے مقابلے میں سب سے کم یعنی ساڑھے 12 فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن ان علاقوں میں دہشت گردی، تعلیمی ڈھانچے کی بربادی اور لاکھوں کی دربدری کے بعد شاید خواندگی کی شرح ساڑھے 12 فیصد کا بھی آدھا رہ گئی ہے۔
عملاً یوں  ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی حکومت نے بنیادی تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا اور صوبوں نے اسے حالات کے سپرد کر دیا۔ اس خلا کو تیز رفتاری سے قائم ہونے والے مختلف مسالک کے مدرسے تندہی سے پورا کر رہے ہیں اور فیصلہ ساز اس سوچ میں غرق ہیں کہ عوام آخر روز بروز بے صبرے اور شدت پسند کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔
حل تو دور کی بات ہے کیا لمبے چوڑے دعوے کرنے والی حکومتیں اور سیاسی مصلحین اس مسئلے کو کوئی سنجیدہ قومی مسئلہ سمجھنے سے  بھی معذور ہیں؟ فی الحال تو الف سے انتشار، ب سے بدگوئی، ت سے تماشا چل رہا ہے؟ ت سے تدبیر اور ت سے تعلیم ابھی بہت دور ہے۔

شیئر: