Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخر گول گپوں میں ایسی خاص بات کیا ہے؟

نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں گول گپے خواتین کی کمزوری ہیں۔ برصغیر میں بہت ہی کم خواتین ہوں گی جن کو گول گپے کھانا پسند نہیں۔ 
وہ چاہے کسی دفتر میں کام کرتی ہوں یا گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہوں، ان کا موڈ جتنا بھی خراب ہو، آپ گول گپے کھلانے کی بات کریں تو فورا راضی اور پرجوش ہو جاتی ہیں۔ 
گول گپوں میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ عورتیں ان کی دیوانی ہیں، یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے چند خواتین اور گول گپے بنانے والوں سے پوچھا تو انکشاف ہوا کہ کچھ خواتین کے لیے تو یہ غذا باقاعدہ نشے کا درجہ رکھتی ہے۔

لڑکیاں چٹ پٹی چیزیں مردوں کی نسبت زیادہ پسند کرتی ہیں، اوریہی وجہ ہے کہ وہ گول گپوں کی اتنی شوقین ہیں

مائدہ خالد لاہور کے فورٹریس سکوائر مال میں مرغوب کھانوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، اس سوال کے جواب میں پہلے تو انہوں نے ایک عجیب سی نظر سے دیکھا اور پھر گویا ہوئیں۔
’گول گپے ایک نشہ ہیں جو خواتین کو کھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں تو جب گول گپے کھانا شروع کر دوں تو ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
مائدہ کو یہ سنیک اتنا پسند ہے کہ وہ یہ کھانے کے لیے جگہ کی صفائی ستھرائی کو بھی نظر انداز کر دیتی ہیں۔
’اگر گول گپے مزے دار ہیں تو صفائی ستھرائی بھول جاتی ہوں۔‘
ثانیہ احمد کا کہنا ہے کہ خواتین کو گول گپے پسند ہونے کی وجہ ان میں موجود کھٹائی ہوتی ہے۔
’میں تو دیوانی ہوں گول گپوں کی۔ کہیں بھی گول گپوں کے اچھے سپاٹ کا مجھے کوئی بتا دے تو میں وہاں ضرور جاتی ہوں۔‘
غذائی ماہر بینش جمال کے مطابق لڑکیاں چٹ پٹی چیزیں مردوں کی نسبت زیادہ پسند کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ گول گپوں کی اتنی شوقین ہیں۔
’تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خواتین کے گلینڈز میں کٹھی اور چٹ پٹی چیزوں کی خواہش مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ نہ صرف پاکستانی یا ایشیائی خواتین کھٹے اور چٹ پٹے کھانوں کی شوقین ہوتی ہیں بلکہ پوری دنیا میں خواتین مردوں کی نسبت زیادہ چٹوری ہوتی ہیں۔‘
گول گپے بیچنے والے جمال ضیا کہتے ہیں کہ خواتین ایک پلیٹ کے ساتھ دو تین بار تو کھٹا پانی مانگ ہی لیتی ہیں۔
’اس کے ساتھ ساتھ چاٹ بھی بار بارمانگتی ہیں۔ اگر خواتین کو آپ گول گپوں میں چاٹ بھر کے بھی دے دیں تو بھی ضرور مانگیں گی، ایسی تو کبھی کوئی خاتون نہیں آئی جو دوبارہ کٹھا پانی نہ مانگے۔‘

گول گپے بیچنے والے جمال ضیا کہتے ہیں کہ خواتین ایک پلیٹ کے ساتھ دو تین بار تو کھٹا پانی مانگ لیتی ہیں

گول گپے ہیں کیا؟

املی، نمک، مرچ، مصالحوں اور لیموں کے رس سے بنے کٹھے پانی، آلو، پکوڑیوں اور چنے چاٹ، آلو بخارے کی میٹھی چٹنی کے ساتھ پیش کی جانے والی غذا کو گول گپے یا پانی پوری کہتے ہیں۔
اس کی ابتدا بھارتی علاقے ماگھدھا سے ہوئی، جو آج کل جنوبی بہار ہے۔ جنوبی بہار میں اسے پھلکی کہتے ہیں اور وہاں اب بھی پورے خاندان کی من پسند خوارک سمجھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے مختلف شہروں میں گول گپوں کو کئی دلچسپ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ لاہور کے گول گپے کراچی میں پانی پوری بن جاتے ہیں تو کہیں اسی خوراک کو پانی کے بتاشے بھی کہا جاتا ہے۔ کہیں پھلکی، ٹکی اور پکوڑی کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش والے اسے پھچکا کہتے ہیں۔
گول گپے کا سب سے دلچسپ نام گپ چپ ہے۔ یہ نام نیپال کے علاوہ انڈٰیا میں جنوبی جھارکھنڈ اور حیدر آباد میں لیا جاتا ہے۔ گول گپا جب کھانے کے لیے منہ میں ڈالا جاتا ہے تو اس کے ٹوٹنے اور منہ میں پانی بھر جانے پر’گپ چپ‘ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے، اس لیےاس کا نام ہی یہ پڑ چکا ہے ۔

گول گپوں کی ابتدا بھارتی علاقے ماگھدھا سے ہوئی،جو آج کل جنوبی بہار ہے

گول گپے اور حفظان صحت

بینش جمال گول گپوں کو صحت کے لیے غیر مفید قرار دیتی ہیں۔

’کسی بھی طرح کچے نمک مرچ مصالحہ جات کے استعمال کو صحت کے لیے بہتر نہیں کہا جا سکتا، ۔یہ نقصان دہ ہی ہیں اور ان کا پہلا نقصان ہیپاٹائٹس کا ہونا ہے۔‘
عمومی طور پر گول گپوں کی تیاری میں بھی حفظان ِ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ خاص طور پر کھٹے پانی کی تیاری میں استعمال ہونے والے کچے اور غیر معیاری مصالحہ جات کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق گول گپوں کو  لمبے عرصے تک ایک ہی کڑاہے میں پڑے گھی یا تیل میں تلا جاتا رہتا ہے جو دل، معدے اور گردوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
اسی طرح گول گپوں میں چاٹ بھرتے وقت، بناتے یا پیک کرتے وقت بنا دھوئے ہاتھوں کا استعمال عام سی بات ہے۔

اسی طرح گول گپوں میں چاٹ بھرتے وقت،بناتے یا پیک کرتے وقت بنا دھوئے ہاتھوں کا استعمال عام سی بات ہے

فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی کارروائیوں کے بعد کچھ لوگوں نے پلاسٹک کے دستانوں کا استعمال کرنا شروع کیا ہے لیکن وہ دستانے بھی تبدیل نہیں کرتے اور ایک ہی جوڑی بار بار استعمال کی جاتی ہے۔
اسی طرح کھٹا پانی بھی کیمیکل والے ڈبوں میں ملتا ہے جن پر محکمہ خوارک کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے۔

شیئر: