Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ہجوم کے تشدد سے ایک اور مسلمان نوجوان کی ہلاکت

انڈیا میں 2002 کے فسادات کے دوران ہندو انتہاپسند تلواریں لہرا رہے ہیں۔ تصویر:اے ایف پی
انڈیا میں مذہبی عدم برداشت کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان نوجوان پر چوری کا الزام لگا کر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر دیا۔
سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندو انتہا پسند تبریز انصاری نامی نوجوان کو کھمبے سے باندھ کر انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ واقعہ ریاست جھاڑکھنڈ کے دھتکڈیہ گاؤں میں منگل کی صبح پیش آیا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم نے نوجوان تبریز انصاری سے زبردستی 'جۓ شری رام' اور 'جۓ ہنومان' کے نعرے لگوائے جبکہ وہ مسلسل ان سے رحم کی بھیک مانگتے رہے۔
ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے تبریز انصاری کی اہلیہ شائستہ پروین نے میڈیا کو بتایا کہ انتہا پسندوں نے رات بھر ان کے شوہر پر تشدد کیا۔
شائستہ پروین نے پولیس اور جیل انتظامیہ کو بھی اپنے شوہر کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق پولیس نے مار پیٹ  کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے ان کے شوہر کو چوری کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا۔
جیل میں تبریز نے سنیچر کو طبیعت خراب ہونے کی شکایت کی تھی۔ ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے انھیں جمشید پور کے صدر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے تاہم ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بظاہر ان کی موت حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی۔
انڈیا میں ماضی میں بھی ہجوم کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔(تصویر:اے ایف پی )
انڈیا میں ماضی میں بھی ہجوم کی جانب سے تشدد کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ (تصویر:اے ایف پی )

یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ نے مذہبی آزادی اور عدم برداشت سے متعلق اپنی رپورٹ میں انڈیا کو شامل کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
انڈیا نے امریکی رپورٹ پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران انڈیا میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 'جھاڑکھنڈ جنادھیکار مورچہ' کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں موجودہ بی جے پی دور حکومت میں ایک درجن افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں جبکہ کچھ کا تعلق دیگر پسماندہ طبقوں سے ہے۔
سپریم کورٹ نے ہجوم کی جانب سے تشدد کو روکنے کے لیے ریاستی حکومتوں کو کڑے قانون بنانے کی ہدایت کی تھی لیکن اس معاملے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
جھاڑکھنڈ سے ملحق ریاست چھتیس گڑھ کی کانگریس حکومت نے ہجوم کے تشدد کا شکار لوگوں کے لیے معاوضے کی بات کی  ہے اور نقصان کے معاوضے کے قانون میں تبدیلیاں کی ہیں لیکن مرکزی حکومت تاحال خاموش ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے خبررساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہجوم کے تشدد کے واقعات رکنے والے نہیں ہیں کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دی ہے۔ انھوں نے کامیابی کے ساتھ ایسی ذہنیت تیار کی ہے جس کے تحت مسلمانوں کو دہشت گرد، ملک مخالف، گائے کو ذبح کرنے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب خود اسدالدین اویسی پارلیمان میں حلف لینے جا رہے تھے تو 'جے شری رام' کے نعرے بلند کیے گئے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہاں پارلیمان میں اس طرح کے واقعات ہو سکتے ہیں وہاں سڑکوں کے حالات کا قابو میں رہنا کس طرح ممکن ہے۔

شیئر: