Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہوش بھٹی کا کالم: جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا عماد ہوتا ہے

جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا عماد وسیم ہوتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ میں لکھ رہی ہوں۔ عماد وسیم کی افغانستان کے خلاف کارکردگی دیکھ کر کسی اور کا ذکر کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
یہ وہی عماد ہیں جو اس سے پہلے مجھے یاد ہی نہیں رہتے تھے۔ یہ وہی عماد ہیں جن کی بولنگ ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ یہ وہی عماد ہیں جو پاکستان سپر لیگ میں ’کراچی کنگز‘ کے کپتان بھی ہیں۔
یہ وہی عماد ہیں جو کبھی ڈراپ ہوئے اور کبھی ٹیم میں واپس آئے لیکن ان کے آنے جانے سے ٹیم کو کوئی فرق نہیں پڑا اور یہ وہی عماد ہیں جن کو اپنا بیٹ گیند کو لگاتے ہوئے شرم آتی تھی۔
لیکن افغانستان کے خلاف عماد نے ہمیں پہلی بار احساس دلایا کے ’اوئے ہوئے ہوئے،  اے تے کھیڈدا وی اے‘۔ وہ وقت جب پاکستان 228 رنز کے  ہدف کی طرف جا رہا تھا اس وقت جب حارث سہیل آؤٹ ہوئے تو ہم نے کہا ’بس جی اللہ حافظ ورلڈ کپ۔‘
لیکن عماد کسی کوئلے کی کان میں سے ایک تراشا ہوا ہیرا بن کر نکلے۔ کئی اوورز ضائع کرنے کے بعد عماد نے گیم کو سمجھنا شروع کیا۔ انہیں یاد آیا کہ وہ تو آل راؤنڈر ہیں، انہوں نے سنگلز لیں، کسی کسی ٹائم ایک آدھ چوکا بھی لگایا۔
عماد وسیم اچھی کارکردگی کے باعث مین آف دی میچ قرار پائے۔ فوٹو رؤئٹرز
عماد وسیم اچھی کارکردگی کے باعث مین آف دی میچ قرار پائے۔ فوٹو رؤئٹرز

حارث اور سرفراز کے بعد وہاب ریاض آئے۔ امید تھوڑی اور بندھی اور پھر ایک دم عماد نے بیٹ اٹھایا، ایک چوکا مارا اور پتہ نہیں کیا کچھ کر دیا۔ آخر میں وہاب ریاض نے عماد کا ساتھ دیا۔ جب تین گیندوں پر دو رنز رہ گئے تو میں نے اپنے آپ کو عماد کے لیے دعا کرتے  پایا۔
یہ شاید خدا کا ایک طریقہ تھا مجھے میری اوقات دکھانے کا۔ پھر ایک چوکا لگا اور پاکستان نے وہ کر دکھایا جو نہ اقبال نے سوچا تھا اور نہ  ہی جناح نے۔ اگر انہوں نے سوچا ہوتا تو شاید وہ پاکستان بنانے کا ارادہ ہی ترک کر دیتے کہ بھائی لوگ تو اس اذیت سے مر جائیں گے، یہ کیسی ٹیم ہے؟
مجھے میچ کے دوران مسلسل سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کی بات یاد آتی رہی کہ پاکستان اپنی مرضی سے جیتتا اور ہارتا ہے۔ میں سوچتی رہی کہ یا اللہ اس ٹیم کو ہارنے کا خیال افغانستان کے خلاف ہی آنا تھا؟ بہرحال افغانستان کے سپنرز نے ہماری بیٹنگ کو کافی تنگ کیا۔
فخر  اور امام الحق پچھلے کئی میچز میں کچھ نہ کرنے کی پرفارمنس دکھا رہے ہیں۔ افغانستان کے خلاف بھی سارا پریشر بابر اعظم پر آیا مگر وہ زیادہ سکور نہ کر سکے۔ ان کے ساتھی جو حفیظ ہیں انہوں نے اپنا 15 سال کا وسیع تجربہ استعمال کیا اور آؤٹ ہو گئے۔ حارث بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ وہی بات کہ یہ عماد کا دن تھا۔ سب نے فیل ہونا تھا۔ سورج مغرب سے نکلنا تھا اور نکل گیا۔
شاہین شاہ اس میچ میں بھی شاہینوں کی طرح اڑتے رہے۔ فوٹو اے ایف پی
شاہین شاہ اس میچ میں بھی شاہینوں کی طرح اڑتے رہے۔ فوٹو اے ایف پی

بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی اس میچ میں بھی شاہینوں ہی کی طرح اڑتے رہے اور چار وکٹیں حاصل کیں۔ افغانستان کا سکور زیادہ ہو سکتا تھا لیکن ہماری بولنگ نے اسے روک لگا دی۔ ہمارے شونو مونو عماد نے بھی دو وکٹیں حاصل کیں۔
ہم ان کی بولنگ اور بیٹنگ پرفارمنس پر وزیرِ اعظم عمران خان سے درخواست کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں عماد کی تصویر لٹکائی جائے اور معاشرتی علوم کی کتاب میں ان کے نام پر ایک پورا چیپٹر شامل کیا جائے۔
جب جیت کے بعد پاکستانی ٹیم کو پوائنٹس ٹیبل پر چوتھے نمبر پر دیکھا تو پہلی بار اپنے پاسپورٹ پر پیار آیا۔ پہلی بار مجھے جی ٹی روڈ بھی اچھا لگا لیکن ایک بات کا احساس بھی ہوا کہ اتنی اذیت ناک زندگی آخر کب تک چلے گی؟
میرے گردے میرے منہ میں آ گئے تھے اور سانس چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ پاکستان جس لحاظ سے کھیل رہا ہے مجھے تو لگتا ہے عوام کو وینٹیلیٹر پاس رکھ کر اگلا میچ دیکھنا ہوگا۔ میری تو وزیرِ اعظم سے درخواست ہے کہ اس ورلڈ کپ کے بعد کرکٹ پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دیں تا کہ لوگ ذہنی طور پر سنبھل سکیں۔
خیر عوام کو بہت مبارک، باقی ایک گانا تو بنتا ہے عماد وسیم کے لیے۔
تم آئے تو آیا مجھے یاد
گلی میں آج عماد نکلا
آج کتنے دنوں کے بعد
گلی میں آج عماد نکلا

شیئر: