Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ کپ میں پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی انتہائی مشکل

ورلڈ کپ 2019 کے میزبان انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو ٹورنامنٹ کے 41 ویں میچ میں شکست دے کر پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کا راستہ مزید مشکل بنا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بنگلہ دیش کو 316 رنز کے مارجن سے شکست دینا ہو گی۔ انگلینڈ کا نیوزی لینڈ کے خلاف مقابلہ قریباً کوارٹر فائنل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اور یہ میچ ہارنے کی صورت میں اس کا مکمل انحصار بنگلہ دیش اور پاکستان کے آخری میچ پر ہوتا۔
انگلینڈ نو میچوں میں چھٹی فتح حاصل کرنے کے بعد 12 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
 دوسری جانب دیکھا جائے تو اب تک آٹھ میچوں میں پاکستان کے پاس نو پوائنٹس ہیں۔ پاکستان کو اب تک چار میچوں میں کامیابی اور تین میں شکست ہوئی ہے جبکہ سری لنکا کے خلاف میچ میں بارش کے باعث صرف ایک پوائنٹ مل سکا۔

پاکستانی شاہین بنگال ٹائیگرز پر جھپٹنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں

نیوزی لینڈ کا کھاتہ بند مگر نظریں پاک بنگلہ دیش میچ پر

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے ورلڈ کپ کے پہلے راؤنڈ میں اپنے نو میچ مکمل کرنے کے بعد 11 پوائنٹس پر کھاتہ بند کر دیا ہے اور اب سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے اس کی نظریں پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ پر مرکوز ہیں۔ پاکستان یہ میچ جیت کر 11پوائنٹس کے ساتھ اس کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں نیوزی لینڈ سیمی فائنل میں شامل ہونے والی چوتھی ٹیم بن جائے گی اور پاکستان کا سیمی فائنل تک پہنچنے کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
پاکستان کو کم رن ریٹ کا سامنا
ورلڈ کپ کے انتہائی اہم میچ میں انگلینڈ فتح حاصل کرنے کے بعد12پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچنے والی تیسری ٹیم بن گئی ہے۔ نیوزی لینڈ اور پاکستان میں سے کسی ایک ٹیم کو سیمی فائنل کی چوتھی ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کرنا ہے جس کا مکمل دارومدار ورلڈ کپ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ پر ہے۔ یہ میچ لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ پر جمعہ 5 جولائی کو کھیلا جائے گا۔
اس تاریخی گراونڈ پر پاکستان کی بڑے واضح فرق سے فتح ہی شاہینوں کو سیمی فائنل مرحلے میں داخل کر سکتی ہے۔
پاکستان بنگلہ دیش سے میچ جیت کر 11 پوائنٹس تو حاصل کر لے گا اور نیوزی لینڈ کے مقابلے میں پوائنٹس ٹیبل پر برابر بھی آجائے گا اور یہ کہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو لیگ میچ میں شکست سے بھی دوچار کر رکھا ہے لیکن رن ریٹ میں نیوزی لینڈ سے پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش سے میچ جیتنے کے باوجود بھی یہ کمزوری پاکستان کے لیے مشکل صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ 

ورلڈ کپ کا مضبوط دعویدار، انڈیا یا آسٹریلیا؟ 

دفاعی اور پانچ مرتبہ کا چیمپیئن آسٹریلیا اور دو مرتبہ کا ورلڈ چیمیپئن انڈیا دونوں نے ورلڈ کپ کی مضبوط ٹیموں کا اعزاز برقرار رکھا ہے اور یہ دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بآسانی پہنچی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آسٹریلیا انڈیا سے اور انڈیا انگلینڈ سے لیگ میچوں میں شکست کا سامنا کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی آخری امیدوں پرپانی پھر چکا ہے۔ یہ دونوں ٹیمیں بھی افغانستان، ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے ساتھ اگلے راؤنڈ میں نہیں پہنچ سکیں اور آخری میچ کھیلنے کے بعد واپسی کے لیے ایئرپورٹ پہنچنے کی منتظر ہیں۔
یہ ٹیمیں اب انڈیا میں کھیلے جانے والے 2023 کے ورلڈ کپ کا انتظار کریں گی اور اپنی کمی، کوتاہیوں کو پرکھنے پرتوجہ دیں گی۔

پاکستانی کھلاڑی پریکٹس سیشن میں حصہ لے رہے ہیں

ورلڈ کپ 1999 کو یاد رکھنا ضروری کیوں!

بنگلہ دیش کی ٹیم خود تو ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہے اور پاکستان کو بھی اپنا شریک سفر بنا سکتی ہے۔ پاکستان اس مقابلے میں فتح کی صورت میں ہی آگے بڑھنے کا موقع حاصل کر سکتا ہے ورنہ بارش یا کسی دوسری وجہ سے میچ برابر ہونے پر بھی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہی رہے گا۔
بنگلہ دیش سے مقابلے سے قبل پاکستان کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنا ہو گی کہ 1999کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ میں ہی نارتھمپٹن کے گراؤنڈ پر بنگلہ دیش کے 223 رنز کے جواب میں پاکستان کی آدھی ٹیم وسیم اکرم کی قیادت میں 42 رنز پر ہی پویلین لوٹ گئی تھی اور 45 ویں اوور میں 161 رنز بنا کر پوری ٹیم ہمت ہار گئی تھی۔ یہ پاکستان کی وہی ٹیم تھی جس نے ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مضبوط ٹیموں کو نہ صرف اس ورلڈ کپ میں شکست دی بلکہ سیمی فائنل میں دوبارہ نیوزی لینڈ کو ہرایا اور فائنل تک رسائی حاصل کی تھی جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا سے ہوا۔

ورلڈ کپ 1999میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو 62 رنز سے شکست دی تھی

کرکٹ ایک ایسا کھیل سمجھا جاتا ہے جس میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک گیند پر چھکا یا آؤٹ کی کیفیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ یہی اس کھیل کی دلچسپی اور حسن بھی ہے۔ کرکٹ کے اکثر ٹورنامنٹس میں کھیل کے ساتھ ساتھ اگر مگر کی گردان بھی جاری رہتی ہے۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے اگر اس ٹورنامنٹ کا موازنہ کیا جائے تو بہت سی قدریں مشترک ہیں۔

شیئر: