Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا آپ کو معلوم ہے فلسطینی ہزاروں برس قبل کہاں سے آئے تھے؟

تیس سال پر مبنی ریسرچ کے مطابق فلسطینی بنیادی طور پر یورپی مہاجر تھے۔ فوٹو: روئٹرز
ماہرین آثار قدیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کے مغربی علاقے میں ہزاروں سال قبل آباد جو لوگ فلسطینی کہلائے وہ بنیادی طور پر یورپی مہاجر تھے۔ تاہم مقامی لوگوں میں شادی بیاہ ہوتے ہوتے ان کی اصل پہچان مٹ گئی۔
ماہرین نے ’عسقلان‘ میں دفن10 افراد کی باقیات کے ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر مذکورہ نتیجہ اخذ کیا۔
معروف سائنسی میگزین ’سائنس ایڈوانسز‘ نے ماہرین کی30 سالہ کاوشوں کا نچوڑ پیش کیا ہے، جس کے مطابق عسقلان کے باشندوں کی جـڑیں یورپ سے ملتی ہیں۔
عسقلان  ایک بڑا تاریخی شہر ہے، جو بحیرہ روم کے مشرق میں واقع ہے۔

ماہرین اسرائیل کے شہرعسقلان میں ملنے والی باقیات پر تحقیق میں مصروف ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز 

سکائی نیوز کے مطابق اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کی سربراہ میشال فلیڈمن نے بتایا کہ کئی اسکالرز نے عسقلان میں دفن افراد کی باقیات کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا، جس سے پتہ چلا کہ عسقلان کے باشندوں کی جڑیں یورپی باشندوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ البتہ عسقلان پہنچنے پر ان کی شادیاں مقامی لوگوں میں کثرت سے ہوئیں جس سے ان کی اصل پہچان گم ہو گئی۔
اسکالرز کا کہنا ہے کہ جنوبی یورپ کے ساحلی علاقوں سے کچھ لوگ تین ہزار برس پہلے نقل مکانی کر کے مشرق وسطیٰ پہنچے تھے۔ یورپ سے آنیوالے یہ لوگ بحیرہ روم کے علاقے میں آباد ہو گئے۔ انہیں رفتہ رفتہ فلسطینیوں کا نام دے دیا گیا۔
سکالرز کا کہنا ہے کہ یہ معلومات بڑی مشکل سے حاصل ہوئی ہیں اوران کا حصول قطعاً آسان نہیں تھا۔
سائنسدانوں نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ جیسے گرم اور خشک علاقوں میں ڈی این اے کی حفاظت بہت چیلنجنگ کام ہے، اس کے باوجود انہوں نے اس میں کامیابی حاصل کر لی۔

 ریسرچ کے مطابق جنوبی یورپ کے ساحلی علاقوں سے کچھ لوگ 3 ہزار برس پہلے نقل مکانی کر کے مشرق وسطیٰ پہنچے تھے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

اسکالرز نے دس افراد کی باقیات پر کام کیا تھا۔ ان میں سے 3 کا تعلق 3600 برس پرانے ’طلائی دور‘ کے آخری سالوں سے ہے۔ جبکہ دیگر ملنے والی 7 باقیات کا تعلق 3400 سال پرانے ’لوہے‘ کے ابتدائی دور سے ہے، جن میں سے 4 باقیات بچوں کی ہیں۔ 
اسکالرز نے 3600 اور2800 برس پہلےعسقلان میں آباد ان دس افراد کی باقیات کا ڈی این اے تلاش کرنے اور ان سے متعلق معلومات حاصل کرنے پر تیس برس کا عرصہ گزار دیا۔
آثار قدیمہ کے اسکالر ارون ماییر کا خیال ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ مقامی باشندوں کے آباﺅ اجداد پر ہونے والی سابقہ ریسرچ سے ملتا جلتا ہے۔ گزشتہ اسکالرز نے تحقیقات کے ذریعے بتایا تھا کہ مقامی باشندوں کی جڑیں کسی ایک قوم سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ یہ کثیر قومی علاقہ رہا ہے۔ یہی بات حالیہ ڈی این اے ٹیسٹ میں بھی سامنے آئی ہے۔

شیئر: