Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم کی پریس کانفرنس،سوشل میڈیا پر ٹرینڈ: ڈرامہ یا تاریخ؟

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران کیے گئے تازہ انکشافات کے بعد پاکستان میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ پاکستان کے عدالتی نظام اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نیب کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو کچھ اس پریس کانفرنس کو ’ڈرامہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
صارفین کی ایک بڑی تعداد نواز شریف کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ ہفتے کی شام کو مریم نواز نے مسلم لیگ ن کی سنیئر قیادت کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے العزیزیہ کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والے نیب کے جج کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھائی۔
اس موقعے پر مریم نے دعویٰ کیا کہ ’جج کو ان کی نجی زندگی کی ایک ذاتی نوعیت کی وڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا اور نواز شریف کے خلاف اپنی مرضی کا فیصلہ کروایا گیا۔‘
مریم نواز کے اس دعوے پر سوشل میڈیا صارفین یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ تحقیقات کرکے معلوم کرنا چاہیے کہ جج کو بلیک میل کرکے نواز شریف کے خلاف فیصلے پر مجبور کرنے والے آخر کون تھے۔
معروف صحافی غریدہ فاروقی نے ٹویٹ کیا کہ نیب کے جج کی وڈیو/آڈیو سکینڈل ایک بہت بڑا تہلکہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سچ ہے یا جھوٹ اس کی فوراً شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں خاص طور پر یہ کہ کس نے جج صاحب کی ذاتی زندگی کی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کرنا چاہا؟ اس تمام واقعے کا نوٹس معزز چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب کو ہی لینا چاہیے۔‘
ایک اور صحافی اعزاز سید نے عدالتی نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’ جج کی ویڈیو اور آڈیو نے پاکستان میں احتساب کا طریقہ کار بے نقاب کر دیا۔‘
طارق بٹ نامی صارف نے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس ویڈیو کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’اعلیٰ عدلیہ کو اس ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے نیب کے جج کا وہ فیصلہ کالعدم قرار دینا چاہیے جس کے نتیجے میں نواز شریف مجرم قرار پائے۔

طارق بٹ نے یہ بھی کہا کہ ’اگر نوٹس نہیں لیا جاتا تو یہ ناانصافی ہوگی۔‘
مریم نواز کے انکشافات کے حوالے سے تجزیہ نگار عمار مسعود نے ٹویٹ کیا کہ ’مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں ستر سال کی تاریخ سنا دی۔‘

مشہور صحافی کامران خان نے لکھا کہ ’جج ارشد ملک کے اس خوفناک وڈیو اعتراف کے بعد اب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر لازم ہے کہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیں کہ نواز شریف کے خلاف جس فیصلے کی انہوں نے داغ بیل ڈالی تھی وہ جج ارشد ملک کے ہاتھوں عدالتی قتل کا شکار ہوتا نظر آیا ہے۔ اب چیف جسٹس صاحب آپ ہی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔‘

دوسری طرف کچھ سوشل میڈیا صارفین مریم نواز کی پریس کانفرنس کا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ویڈیو کو جھوٹی قرار دے رہے ہیں۔
محسن حجازی نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’صرف ایک ویڈیو سے پانسہ پلٹنے کی امید سادہ ترین الفاظ میں حماقت ہے، ہمیشہ بطور اصول، یہ حقائق عوام کے سامنے پہلے ہی اور بروقت سامنے لانا چاہئیں۔ خود اتنا طویل عرصہ ایسی پردہ پوشی اصول پسندی نہیں بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے جس کا معاشرت، معیشت سمیت بے پناہ اجتماعی نقصان ہوا ہے۔‘

ایک صارف مونیب راج نے کہا کہ مریم نواز کی جاب سے دکھائی گئی ویڈیو جھوٹی اور جعلی ہے۔ ویڈیو کی آڈیو آواز کے ساتھ نہیں ملتی۔ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کی پریس کانفرنس کے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اس وڈیو اور آڈیو ٹیپ کا فارنزک آڈٹ ہوگا جس کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ یہ ٹیپ اور آڈیو کتنا معتبر ہے۔ حقیقت ہے یا بنایا گیا ہے۔

شیئر: