Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب انڈین کرکٹر بشن سنگھ بیدی نے پاکستانی کو خون دیا

بش سنگھ بیدی کرکٹ ہی نہیں، سیاسی  معاملات میں بھی دو ٹوک رائے دیتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
بشن سنگھ بیدی کا شمار ان انڈین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جن کا پاکستان میں بڑا احترام ہے۔ پاکستانی کھلاڑی ان کا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں 1987 میں بنگلور ٹیسٹ جیت کر پاکستان نے پہلی دفعہ انڈین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں کامیابی حاصل کی۔
جیتا پاکستان مگر غداری کا الزام بیدی پر لگ گیا۔
ہوا کچھ یوں کہ ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کھیل کے اختتام پر انڈیا کو جیت کے لیے 122 رنز اور پاکستان کو چھ وکٹیں درکار تھیں۔ سنیل گواسکر کی وکٹ پر موجودگی میزبان ٹیم کے لیے باعثِ اطمینان اور مہمان ٹیم کے لیے پریشان کن تھی۔
ایک تقریب میں اقبال قاسم اور توصیف احمد کی بشن سنگھ سے ملاقات ہوئی تو دونوں سپنروں نے ان سے رہنمائی چاہی۔ بیدی نے پاکستانی بولروں کو لمبا چوڑا لیکچر نہیں دیا بس سپن بولنگ سے متعلق چند بنیادی باتیں کیں۔
انھیں بتایا کہ ’سپنر کے لیے ساز گار وکٹ پر بیٹسمین کو آﺅٹ کرنے کی فکر نہ کرو کیونکہ یہ کام وکٹ خود ہی انجام دے گی۔ بنگلور کی وکٹ پر جہاں گیند اتنا زیادہ بریک ہو رہا ہے وہاں لیفٹ آرم سپنر اقبال قاسم کی گیند پر کور ڈرائیو کھیلنے کی کوشش ہوگی تو گیند سلپ کا رخ کرے گی اور آف سپنر توصیف احمد کی بولنگ پر کور ڈرائیو کی کوشش پر گیند وکٹوں میں جائے گا یا پھر ان سائیڈ ایج پیڈ پر لگنے سے بیٹسمین کیچ آﺅٹ ہوگا۔
ٹیسٹ کے چوتھے روز اقبال قاسم نے چار اور توصیف نے دو وکٹیں لے کر اپنی ٹیم کو میچ جتوا دیا۔گواسکر 96 رنز بنا کر آﺅٹ ہوئے اور پاکستان 16 رنز سے میچ جیت گیا تو بیدی شدید تنقید کی زد میں آئے۔
پاکستانی بولروں کو ٹپس دینے پر انھیں غدار کہا گیا۔
پاکستانی بولروں کو ٹپس دینے پر انھیں غدار کہا گیا
پاکستانی بولروں کو ٹپس دینے پر بیدی کو غدار کہا گیا۔ فوٹو اے ایف

بیدی نے موقف اختیار کیا کہ انھوں نے پاکستان بولروں سے 10 منٹ بات کی ہوگئی جبکہ انڈین بولروں کو وہ عرصے سے سپن بولنگ کی باریکیاں بتا رہے ہیں۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد نے جب یہ بیان دیا کہ انھیں بیدی کے مشوروں سے فائدہ ہوا تو اس بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بیدی پر تنقید کا کوڑا اور بھی شدت سے برسا۔ 
توصیف احمد نے 2017 میں ایک قومی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ بیدی نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا کرارا جواب یہ کہہ کر دیا ’میں نے پاکستانی بولروں سے 10 منٹ بات کی اور وہ سمجھ گئے یہاں والوں کو میں برسوں سے سمجھا رہا ہوں مگر وہ سمجھ ہی نہیں رہے۔‘
انڈیا یہ میچ ہار گیا لیکن سنیل گواسکر نے نہایت عمدہ بیٹنگ کی۔ عمران خان نے اپنی کتاب 'آل راﺅنڈ ویو' میں ان کی اننگز کی بڑی تعریف کی اور لکھا ہے کہ خراب وکٹ پر جہاں گیند عجیب طریقے سے کبھی اوپر اٹھتا اور کبھی بالکل نیچے رہ جاتا، گواسکر نے 'محیر العقول' اننگز کھیلی۔
یہ گواسکر کی ٹیسٹ میں آخری اننگز تھی۔ اس ٹیسٹ کے بعد انھوں نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ 
چند دن پہلے انگلینڈ کے سابق، کپتان ایم سی سی کے سابق صدر اور ممتاز تجزیہ کار مائیک بریرلی کے مضامین کا مجموعہ ”آن کرکٹ“ پڑھا، جس میں بیدی پر مضمون بہت پسند آیا اور ان کے بارے میں بہت کچھ نیا جاننے کو ملا۔
سپن بولر کے طور پر ان کی حیثیت مسلمہ ہے اس لیے زیادہ دلچسپی سے وہ حصے پڑھے جن سے ان کی شخصی خوبیاں اجاگر ہوتی ہیں۔ ان میں ایک وصف کشادہ دلی ہے۔
بریرلی نے لکھا ہے کہ ’جیلیٹ کپ‘ کے فائنل میں ڈیوڈ ہیوز نے ان کی بولنگ پر تین لگاتار چھکے مارے اور ہر چھکے کی الگ سے بولر سے داد پائی۔کھیل کے میدان میں مسابقتی جذبے کی وجہ سے ٹونی لیوس نے انھیں سپنروں کا ڈینس للی قرار دیا۔
وہ کرکٹ کی کلاسیکی روایت کو پسند کرتے ہیں اور اس کھیل میں ہونے والی تبدیلیوں کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ 
مائیک بریرلی کی کتاب کے ذریعے بیدی کے بارے میں سب سے اچھی بات جو راقم کے علم میں آئی اس کا تعلق انسانی ہمدردی سے بھی ہے، پاکستان سے بھی اور محترمہ بینظیر بھٹو سے بھی۔ 
1982 میں (بیدی اس زمانے میں سلیکٹر تھے اور پی ٹی وی کی دعوت پر کمنٹری کے لیے پاکستان آئے تھے) کراچی ٹیسٹ کے دوران انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں خون کی ضرورت کا اشتہار بیدی کی نظر سے گزرا۔

بینظیر بھٹو نے بشن سنگھ بیدی کو دو قالین اور ایک ٹی سیٹ تحفے میں بھجوایا۔ فوٹو: اے ایف پی

مریض ایک نوجوان تھا اور جس گروپ کا خون اسے چاہیے تھا وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ بیدی کا بلڈ گروپ مطلوبہ بلڈ گروپ سے میچ کرتا تھا۔ انھوں نے متعلقہ جگہ رابطہ کرکے آفر کی کہ اگر کسی انڈین کا خون لینے میں قباحت نہ ہو تو ان کا لہو حاضر ہے۔ یہ کہانی پریس تک پہنچ گئی۔
بیدی نے بریرلی کو بتایا کہ ان کے جذبے کی اس قدر پذیرائی ہوئی کہ پاکستانی قوم نے دیدہ و دل فرش راہ کر دیا، وہ جس دکان پر جاتے لوگ ان سے کسی چیز کے پیسے وصول کرنے کو تیار نہ ہوتے اور تحفے تحائف سے لاد دیتے۔
بیدی کے اس عمل نے محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی متاثر کیا اور انھوں نے کرکٹر کو دو قالین اور ایک ٹی سیٹ تحفے میں بھجوایا۔ اس کے بعد دونوں میں دوستی ہوگئی۔
بش سنگھ بیدی کرکٹ ہی نہیں، سیاسی  معاملات میں بھی دو ٹوک رائے دینے کے قائل ہیں۔
سریش مینن نے بیدی کی سوانح، ’بشن: پورٹریٹ آف اے کرکٹر‘ میں بتایا ہے کہ 1984 میں اندرا گاندھی کے دور میں گولڈن ٹیمپل پر فوج نے چڑھائی کی تو بیدی نے اس کارروائی کی بھرپور مخالفت کی اور کہا کہ حکومت نے معاملے کے نفسیاتی پہلو نظر انداز کرکے سنگین غلطی کی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت الیکشن کے نقطہ نظر سے فیصلے کر رہی ہے جو غیر مناسب بات ہے۔ 
حکومت کے ساتھ ساتھ وہ خالصتان تحریک کے لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ اور ان کے ساتھیوں کی پالیسی کے بھی ناقد تھے جن کے خلاف کارروائی کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ غلط کام کا جواب غلط طریقے سے دیا جائے تو اس سے خیر برآمد نہیں ہوتی۔
وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے سرکاری ملازمت سے معطل بھی ہوئے۔
ریاستی پالیسی کے خلاف بولنے کی جرات کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے، سلیبریٹز تو اور بھی زیادہ محتاط ہوتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے جان کے لالے ہی نہیں پڑتے، مقبولیت بھی داﺅ پر لگانی پڑتی ہے کیونکہ عام عوام تو عموماً ریاستی بیانیے کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔

شیئر: