Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پابندی کے باوجود حاملہ طالبات کو میرے سکول میں خوش آمدید کہا جائے گا‘

ماریاتو کے پرنسپل نے قانون کے خلاف جاتے ہوئے اس کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی۔ (فوٹو:روئٹرز)
مغربی افریقہ کے ملک سیرا لیون کی 14 برس کی ماریاتوسیسے کو جب معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہیں تو کلاس روم میں تنہائی کے خوف سے زیادہ جس چیز نے ان کو پریشان کیا تھا وہ سیرا لیون کا وہ قانون تھا جو حاملہ طالبات کے سکول جانے پر پابندی عائد کرتا ہے۔
ذہین طالب علم ہونے کی وجہ سے وہ سکول جاتی رہی اور اپنے اساتذہ کو التجا کرتی رہی کہ اسے کلاس میں بیٹھنے دیا جائے ، باوجود اس کے دوسرے طالبعلم اس کے بڑھتے ہوئے پیٹ کا مذاق اڑا رہے تھے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ماریاتو کے عزم کو دیکھتے ہوئے دارالحکومت فری ٹاؤن کے ایک سکول کے پرنسپل ایرک کونتیح نے قانون کی خلاف ورزی کی اور اپنی نوکری کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ماریاتو کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی۔

ماریہ تو نے اپنے حمل کے دوران تعلیم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ (فوٹو:روئٹرز)

ماریاتو کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی جو نو ماہ کی ہے۔
ماریہ تو نے بتایا ’سکول کے دیگر طالب علم ان کا مذاق اڑاتے تھے، مجھے غصہ دلاتے تھے لیکن مجھے اپنی تعلیم سے پیار تھا اس لیے میں نے سکول نہیں چھوڑا۔‘
سکول کے پرنسپل نے خبرساں ادارے سے سکول کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی۔
اس سکول کے پرنسپل سرا لیون میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ایک حاملہ طالبہ کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی۔
تاہم اب سرا لیون کے اندر اس قانون کے خلاف دباؤ بڑھ رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ایکویلٹی ناؤ نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، گذشتہ مہینے عدالت نے دلائل سنے اور امکان ہے کہ نومبر میں فیصلہ دے۔
سرا لیون کی حکومت کا مؤقف ہے کہ سکول میں باقاعدہ طور پر کلاسز لینا حاملہ طالبات کو تھکا سکتا ہے، دیگر طالبات ان کا مذاق اڑا سکتے ہیں اور وہ بھی حاملہ ہونے پر مائل ہوسکتے ہیں۔‘

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم اداروں نے حاملہ طالبات کی سکول داخلے پر پابندی کے قانون کو چیلنج کیا ہے۔ (فوٹو:روئٹرز)

گذشتہ برس حکومت سنبھالنے کے بعد صدر جولیس مادہ بائو نے پرائمری تعلیم کا دائرہ کار پھیلایا تھا، ان کی اہلیہ فاطمہ جبی بائو جنسی تشدد کے خاتمے کے خلاف کام کرتی ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک سکولوں میں حاملہ لڑکیوں کے جانے پر سے پابندی اٹھانے کی جانب توجہ نہیں دی۔
ماریاتو کے سکول کے پرنسپل ایرک کونتیح کا کہنا ہے کہ ماریاتو کے حمل کے آخری دنوں میں وزارت تعلیم کے ایک افسر نے سکول کا دورہ کیا تھا اور وہ ماریاتو سے متاثر ہوئے تھے اور اس سلسلے میں اپنے محکمہ کو بتایا بھی نہیں۔
ان کے مطابق کسی بھی لڑکی کے حاملہ ہونے کی وجہ سے اسے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا ’کوئی بھی حاملہ لڑکی جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے، ان کو میرے سکول میں خوش آمدید کہا جائے گا۔‘
افریقہ میں حمل کی شرح زیادہ ہے، 2015 میں سیرا لیون میں حاملہ لڑکیوں کی سکول میں داخلے پر پابندی اس وقت لگی جب وہاں ایبولا کی وبا پھیلی۔
سرا لیون کے دارالحکومت کی ایک اور 14 برس کی لڑکی کو اس وجہ سے سکول اور گھر سے نکالا گیا تھا کہ وہ حاملہ ہوگئی تھی۔
اس کے مطابق وہ اس دن کا انتظار کر رہی ہے جب اس قانون کو ختم کیا جائے گا اور حاملہ لڑکیوں کے سکول میں داخلے پر پابندی نہیں ہوگی اور وہ صحافی بنے گی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں