سوشل میڈیا پر کون سی یونیورسٹی کس یونیورسٹی سے اور کس وجہ سے بہتر ہے کی بحث چل رہی ہے۔
اس بحث کا آغاز تب ہوا جب لاہور میں موجود پاکستان کی مشہور یونیورسٹی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) سے تعلیم حاصل کرنے والے ایک ٹوئٹر صارف محمد علی رضا نے ایک خاتون کی ٹویٹ پر ایسا جواب دیا جس کی وجہ سے سوشل میڈیا صارفین نے نہ صرف انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ لمز کا ہیش ٹیگ ٹویٹر پر ٹریند بھی ہو رہا ہے۔
ایک خاتون ٹوئٹر صارف نے ٹویٹ کی تھی کہ اگر کوئی لمز میں تعلیم حاصل کر رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ بہت ذہین یا کوئی دانشور ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے والد اس یونیورسٹی کی فیس ادا کر سکتے ہیں ۔
1. Money is not only enough for you to get into LUMS
2. #LUMS people carry a class that money doesnt buy
3. Yes My Dad is Rich, Deal with it bitch pic.twitter.com/B31FXOXrRI
— Ali Zar Raza (@alizarraza) July 17, 2019
اس ٹویٹ کے جواب مین علی رضا نام کے لمز کے طالب علم نے لکھا کہ لمز میں پڑھائی کر نے کے لیے پیسے کی نہیں بلکہ ’کلاس‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسے سے ’کلاس‘ نہیں خرید ی جا سکتی ۔
علی رضا کے اس جواب پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید غصے کا اظہار کیا۔ سمیع یوسف نام کے ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’آپ کو خود پر ’شرم آنی چاہیے‘ آپ سے زیادہ کلاس مجھے اپنے گھر کے چوکیدار میں نظر آتی ہے کیونکہ کلاس پیسے سے نہیں خریدی جا سکتی۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے خیالات پر غور کر کے انہیں بدلنے کی کوشش کریں گے لمز کے لیے بھی اور خود کے لیے بھی!‘
You ought to be ashamed of yourself. I’ve seen more class in the watchman of my building than you. Money cannot buy class. I sincerely hope you take some time to understand that and change the perception of yourself and LUMS for that matter.
— Samie Tariq (@SamieTariq) July 18, 2019
سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ اگر لمز اس قسم کے طالب علم تیار کر رہی ہے تو پھر ہمیں تعلیمی اداروں کی ایڈمیشن پا لیسی پر سخت نظر ثانی کی ضرورت ہے اور میرے خیال سے داخلے سے قبل SAT کے بجائے اگر اخلاقیات کا ٹیسٹ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
SAT ایک امتحان کا نام ہے جو یونیورسٹی اور کالجوں میں داخلے کے لیے دیا جاتا اور جس کا زیادہ تر استعمال امریکہ میں ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کا غصہ دیکھتے ہوئے علی رضا نے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا جس میں انہوں نے اپنا موقف بیان کرتے ہو ئے کہا کہ میرے ایک ٹویٹ پر لوگ بہت غصہ کر رہے ہیں جس میں میں نے کہا تھا کہ لمز میں پڑھنے والا ہر بندہ امیر نہیں ہو تا۔
’لمز ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے بہت سے دانشور ، سی ایس ایس کے امتحان میں اول نمبر لینے والے افراد اور ذہین طلبہ بھی پاس آوٹ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ قسمت کی بات ہوتی ہے کچھ لوگوں کو داخلہ مل جاتا ہے اور کچھ کو نہیں۔ مگر انہی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو داخلہ نہ ملنے کی صورت میں اسے ذہنی طور پر تسلیم نہیں کر پاتے اور ان تمام لوگوں کی جگہ یہاں ہے اس کچرے کی ڈھیر میں۔‘
If this is what #Lums is producing then it better take a hard look into its admission policy & probably introduce ethics test rather than SATs.
You Sir are absolutely out of line and should apologize for using such language. https://t.co/4Fumv96VPF
— Salman Sufi (@SalmanSufi7) July 17, 2019
علی رضا کے اس ویڈیو بیان کے سامنے آتے ہی انہیں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایک مرتبہ پھر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سعد نام کے صارف کا کہنا تھا کہ اگر علی رضا جیسے لوگ لمز سے تعلیم حاصل کر تے ہیں تو پھر انہیں اپنی پڑھائی پر فخر ہے۔
If LUMS is producing students like these, then I am happy with my education. pic.twitter.com/Qa9RGiQs3C
— Saad (@saad_durrani) July 18, 2019
طیب نے کہا کہ لمز سے پڑھ کر خود کو ذہیں سمجھنا تکبر کی علامت ہوگا۔
Not Sorry #LUMS se na Takrana Babies pic.twitter.com/gxqLdREDqg
— Ali Zar Raza (@alizarraza) July 17, 2019
بینش خانزداہ نے کہا کہ اس کا تعلق ذہین ہونے سے زیادہ پیسے سے ہے۔ وہ تمام لوگ جو لمز جاتے ہیں انہیں یقینی طور پر امتیازی مقام ان لوگوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے جو کچھ وجوہات کی وجہ سے لمز نہیں جا پاتے۔
سماجی کارکن نداکرمانی کا کہنا تھا کہ لمز میں داخلے کے لیے صرف پیسہ ضروری نہیں لیکن جب عوام کے لیے معیاری تعلیم کا وجود نہ ہونے کے برابر ہو تب ضرور پیسے سے راستہ بنتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لمز میں چند ایسے طلبا بھی پڑھتے ہیں جن کا تعلق اونچی کلاس سے نہیں ہوتا لیکن بہت سے طلبا کے لیے کلاس معنی رکھتا ہے۔
Certainly money does not buy you into Lums, but when quality public education is non-existent, having money certainly paves the way. A few exceptional students get in who don’t come from privilege but for many, their privilege matters. Also check the arrogance please.