Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے خشک کنویں جو انسان نگل رہے ہیں

ابتدائی چند گھنٹوں تک عطاءاللہ زندہ تھا وہ تنگ اور گہرے کنویں سے مدد کیلئے پکارہا تھا۔
پاکستان کا صوبہ بلوچستان حالیہ برسوں میں شدید خشک سالی کا شکار رہا ہے اس کے نتیجے میں پانی کے ہزاروں کنویں خشک ہوگئے۔ اب یہ خشک کنویں موت کے کنویں بن رہے ہیں۔
خشک ٹیوب ویلوں میں گر کر کئی افراد کی موت ہوچکی ہے۔ اذیت ناک بات یہ ہے کہ سینکڑوں فٹ گہرے اور انتہائی تنگ کنوﺅں میں گرنے کے بعد کسی کو آج تک زندہ تو نہیں نکالا جاسکا ہے، لیکن لاش نکالنا بھی ورثاء کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ صوبے میں ریسکیو کا ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں جو ایسی صورتحال میں متاثرہ شخص کی مدد کرسکے۔
اس نوعیت کا تازہ واقعہ 18 جولائی کو خضدار کے علاقے نال میں پیش آیا جہاں تین سو فٹ گہرے ٹیوب ویل میں گرنے والے 13 سالہ عطاءاللہ کو پانچ دن بعد بھی نہیں نکالا جاسکا ہے۔ ڈپٹی کمشنر خضدار میجر ریٹائرڈ محمد الیاس کبیزئی کے مطابق عطاءاللہ اپنے والد بایزید کے ہمراہ خشک اور خراب ہونے والے ٹیوب ویل سے پائپ نکال رہا تھا اس دوران پھسل کر گہرے ٹیوب ویل کے اندر جا گرا۔ ٹیوب ویل کی چوڑائی انتہائی کم ہے اس لئے اس تنگ ٹیوب ویل سے لڑکے کو نکالنا مشکل ہوگیا۔ 
 

خشک سالی کے سبب پانی کی سطح گرنے کی وجہ سے بیشتر ٹیوب ویل خشک ہوگئے ہیں۔

’اطلاع ملتے ہی ہم نے خضدار اور قریب کے اضلاع سے ایسے ماہر افراد کو تلاش کرکے ریسکیو کے کام میں مدد لی جو تنگ کنوﺅں میں اترسکتے تھے مگر لڑکا تقریباً 65 فٹ گہرائی تک گر نے کی وجہ سے ریسکیو نہ ہوسکا۔‘
ابتدائی چند گھنٹوں تک عطاءاللہ زندہ تھا وہ تنگ اور گہرے کنویں سے مدد کیلئے پکارہا تھا مگر ریسکیو کیلئے بنیادی اور ضروری آلات نہ ہونے کی وجہ سے اسے ریسکیو نہ کیا جاسکا۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق ’اس کے بعد ہم نے موبائل فون نیچے اتارا اور اس کے کیمرے سے ریکارڈنگ کی تو معلوم ہوا کہ عطاءاللہ کی موت ہوچکی ہے۔‘ 
چار دنوں سے ٹیوب ویل کے کنارے بیٹھے بایزید جہاں اپنے بچے کا زندہ درگور ہونے کا درد سہ رہے ہیں وہیں اب تک اپنے جگر گوشے کی لاش نہ نکالے جانے کا عذاب بھی جھیل رہے ہیں۔ بایزید کے مطابق انہیں تو اب بس بیٹے کی لاش دیکھ کر ہی قرار آئے گا۔
ڈپٹی کمشنر خضدار کے مطابق میجر ریٹائرڈ الیاس کبیزئی نے بتایا ’ہم بچے کو زندہ تو نہیں نکال سکے مگر بھاری مشنری کے ذریعے کھدائی کرکے بچے کی لاش نکالنے کا کام جاری ہے۔ ہم نے 65 فٹ تک کھدائی کا کام مکمل کرلیا تو معلوم ہوا کہ لڑکا مزید نیچے گر کر 80 فٹ چلا گیا ہے۔ پھر بارشیں ہونے کی وجہ سے ہمیں کھدائی کا کام روکنا پڑا۔ لاش بھی مزید نیچے جاکر 109 فٹ تک چلی گئی۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ ٹیوب ویل تین سو فٹ سے زائد گہرا ہے۔ لاش مزید نیچے چلی گئی تو اسے نکالنا مشکل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ خضدار 44 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ضلع ہے۔ ’ایسے کسی حادثے کی صورت میں ہمیں فوری ریسکیو کا کام شروع کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ریسکیو کیلئے بنیادی ضروری آلا ت بھی نہیں ہیں۔‘ انہوں نے کہا ’ہم نے کنویں سے بچے کو نکالنے کیلئے پرونشل ڈیزاسسٹرمینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) بلوچستان سے مدد مانگی مگر ان کے پاس ایسی کوئی مشنری نہیں جو کسی تنگ کنویں سے کسی کو ریسکیو کرسکیں ۔ اس کے بعد ہم نے پی ڈی ایم اے سندھ سے بھی رابطہ کیا مگر ان کے پاس بھی کوئی ضروری آلات نہیں۔ بد قسمتی سے پورے پاکستان میں ایسی کوئی ریسکیو مشنری نہیں جس سے اس صورتحال میں پھنسے کسی شخص کو بچایا جاسکے۔‘ 

جمعیت علماءاسلام کے رکن یونس عزیز زہری نے کہا کہ بچے کی لاش نکالنے کا کام لوگ اپنی مدد آپ کررہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ یہ خضدار میں گزشتہ تین سالوں کے دوران اس نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے اس سے قبل 2017ء میں خضدار کے علاقے وڈھ میں آٹھ سالہ بچی خشک ٹیوب ویل میں گر گئی تھی جو کچھ وقت تک زندہ تھی اور پھر وہیں دم توڑ گئی اور اس کی لاش بھی بھاری مشنری کے ذریعے کھدائی کرکے 13 دن بعد نکالی گئی۔
اس کی لاش گل سڑھ گئی تھی۔ اسی طرح خضدار کے علاقے کرخ میں بھی خشک ٹیوب ویل میں گرنے والے ایک شخص کی لاش چار دنوں کی جدوجہد کے بعد نکالی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو کیلئے بنیادی اور ضروری آلات کی فراہمی پر توجہ دی جانی چاہیے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق خضدار اور صوبے کے بیشتر علاقوں میں پانی کے حصول کیلئے زیر زمین گہرے اور تنگ کنویں یعنی ٹیوب ویل پر انحصار کیا جارہا ہے مگر خشک سالی کے سبب پانی کی سطح گرنے کی وجہ سے بیشتر ٹیوب ویل خشک ہوگئے ہیں۔ اب لوگوں نے ان ٹیوب ویلوں کو ڈھکنے کی بجائے ایسا ہی کھلا چھوڑ دیا ہے جس کے سبب ایسے حادثات پیش آرہے ہیں۔
’ہم نے خضدار شہر میں آبادی والے علاقوں میں ایسے ٹیوب ویلوں پر ڈھکنے رکھ دیئے ہیں مگر دور دراز علاقوں میں اب بھی سینکڑوں ایسے ٹیوب ویل موجود ہیں جو خطرے کا سبب ہیں۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل مستونگ ، قلعہ عبداللہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی اس طرز کے حادثات پیش آچکے ہیں۔ 6 اکتوبر 2015ء کو قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان میں نیک محمد کا 10 سالہ بیٹا عبداللہ سینکڑوں فٹ گہرے خشک ٹیوب ویل میں گرا تو اسے تین دن کی جدوجہد کے بعد بھی زندہ اور نہ ہی مردہ نکالا جاسکا۔ جس کے بعد اسی ٹیوب ویل کے اوپر ان کی قبر بنادی گئی۔ 
اس حادثے کے چار سال بعد بھی حکومت نے ایسے حادثات کے تدارک یا پھر ایسی کسی ہنگامی صورتحال میں ریسکیو کیلئے ضروری آلات کی خریداری اور اہلکاروں کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔
کوئٹہ میں آفات اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے اور ریسکیو 1122 کے سربراہ عمران زرکون کے مطابق پی ڈی ایم اے اور نہ ہی ریسکیو 1122 کیلئے تنگ کنویں میں گرنے والے کسی شخص کو ریسکیو کرنے کیلئے کوئی سہولت یا آلات موجود نہیں۔ 
بلوچستان میں ریسکیو کا نظام
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ بلوچستان میں 1122 کا ادارہ چند سال قبل قائم کیا گیا اور اسے پی ڈی ایم اے کے ماتحت رکھا گیا مگر یہ ادارہ ابھی تک اس طرح فعال نہیں جس طرح پنجاب میں ہے۔
ہمارے ہاں ریسکیو 1122 اب تک محکمے کے طور پر ہی قائم نہیں ہوا۔ 'پی ڈی ایم اے کا اپنا ریسکیو کیلئے کام کرنے والا نظام موجود ہے ہم سیلاب اور زلزلے کی صورت میں امدادی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں مگر اس کیلئے بھی ہمارے پاس وسائل محدود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122 کو فعال کرنے کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ ہم نے کئی بار ریسکیو کیلئے بنیادی اور ضروری آلات کیلئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔

سینکڑوں فٹ گہرے اور انتہائی تنگ کنوﺅں میں گرنے کے بعد کسی کو آج تک زندہ تو نہیں نکالا جاسکا ہے۔

بلوچستان حکومت نے تقریباً چھ سال قبل ریسکیو 1122 کا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ابتدائی طور پر کوئٹہ اور اس کے بعد اسے صوبے کے تمام ڈویژن میں اس کے دفاتر قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق ریسکیو 1122 کیلئے 40 سے زائد اہلکار کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کرکے انہیں لاہور سے چھ ماہ کی تربیت دلائی گئی مگر پچھلے دور حکومت میں انہیں فارغ کردیا گیا۔ اب یہ کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔
خضدار نال سے اپوزیشن جماعت جمعیت علماءاسلام کے رکن بلوچستان اسمبلی یونس عزیز زہری کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اے ایک ناکارہ ادارہ ہے وہ صرف خیمے اور راشن وغیرہ تقسیم کرتاہے کیونکہ اس میں بد عنوانی وغیرہ ہوتی ہے۔
اس ادارے کے پاس کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی مشنری اور آلات موجود نہیں نہ صوبائی حکومت اس ادارے کو آلات اور سہولیات کی فراہمی پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے کی لاش نکالنے کا کام لوگ اپنی مدد آپ کررہے ہیں اس میں حکومت کی جانب سے مدد نہیں دی جارہی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے یونس عزیز زہری نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ چند ماہ قبل تک جب بلوچستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں تھا تو انہوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی بجائے صرف لوگوں میں خیمے، کمبل اور پانی کے کولر تقسیم کئے۔

شیئر: