Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نمیرا سلیم خلا میں جانے والی پہلی پاکستانی ہوں گی

دو لاکھ ڈالر کا ٹکٹ خرید کر نمیرا سلیم خلا میں جانے والی پہلی پاکستانی ہوں گی، تصویر: فیس بک
نمیرا سلیم ہمیشہ سے مہم جو رہی ہیں اور انہوں نے بہت سے دشوار تجربات سے گزرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن کوئی بھی کامیابی نمیرا کے لیے کافی نہیں رہی، اور ہر کامیابی کے بعد ان میں مزید کچھ اور کر گزرنے کی امنگ پیدا ہوئی۔
اور یہ امنگ اب ان کو خلا میں لے کر جا رہی ہے۔ وہ خلا میں جانے والی پہلی پاکستانی خاتون ہوں گی۔
نمیرا نے آرلانڈو سینٹینل کو انٹرویو میں کہا کہ ’زمین کے مدار کے پار جانے سے پہلے میں زمین پر جتنا دور ممکن ہو سکے جانا چاہتی ہوں۔‘
نمیرا کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن وہ 1997 سے یورپ کی خود مختار ریاست ’موناکو‘ میں رہائش پذیر ہیں، وہ موناکو اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو 2011 میں موناکو میں پاکستان کا پہلا اعزازی قونصل منتخب کیا گیا تھا۔
2007 میں نمیرا قطب شمالی اور 2008 میں قطب جنوبی جانے والی پہلی پاکستانی تھیں۔ ان کو 2008 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والی پہلی ایشیائی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

نمیرا سلیم ماؤنٹ ایورسٹ سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والی پہلی ایشیائی ہیں، تصویر: فیس بک

نمیرا سلیم نے برطانوی ’گیلکٹک فلائٹ‘ نامی کمپنی کی خلا میں لے جانے والی پرواز کا دو لاکھ ڈالر کا ٹکٹ خرید رکھا ہے۔  وہ 2006 میں اسی کمپنی کی بانی رکن بھی بنی تھیں جس کے مالک برطانوی ارب پتی رچرڈ برانسن ہیں۔
گیلکٹک فلائٹ دو کامیاب ٹیسٹ پروازیں خلا میں بھجوا چکی ہے اوررواں سال باقاعدہ طور پر کمرشل پروازوں کا آغاز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
 کمرشل خلائی پرواز کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے 44 ہزار افراد کی جانب سے درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں، جن میں سے ایک نمیرا بھی تھیں۔ قریباً ایک سال کے مذاکرات کے بعد گیلکٹک فلائٹ نے ان کو خلائی پرواز میں لے جانے کی تصدیق کی تھی۔ 
نمیرا سلیم کا کہنا ہے کہ وہ بطوررکن ورجن گیلیکٹک عام لوگوں کے لیے خلا میں جانے کے مواقع پیدا کر رہی ہیں۔

نمیرا سلیم قطب شمالی اور قطب جنوبی جانے والی پہلی پاکستانی ہیں، تصویر: فیس بک

انہوں نے کہا کہ چونکہ بین الاقوامی کمپنیوں اور دیگر ممالک کی شراکت داری سے خلا میں فلائٹ لے جانے کا سسلسلہ شروع ہو گیا ہے، تو اب دیگر قومیت کے لوگوں اور خواتین بالخصوص ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والوں کو بھی موقع ملنا چاہیے۔
نمیرا سمجھتی ہیں کہ لوگ خلائی ٹیکنالوجی کی روزمرہ زندگی میں اہمیت سے بے خبر ہیں، جبکہ اگر دیکھا جائے تو روز مرہ کے استعمال کے آلات جیسے موبائل فون اور گاڑیوں میں نصب نیویگیشن سسٹم خلائی ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو طبی کامیابیوں، ماحول کی بہتری اورآفات کی روک تھام کے لیے تجربات کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’لوگوں کی نظر میں خلائی پرواز میں سفر کرنے کی اہمیت نہیں، میرے نزدیک یہ بہت اہم ہے، اور مستقبل میں کمرشل خلائی پروازیں ہی طالب علموں اور سیاست دانوں کو تجربوں کے لیے خلا میں لے جایا کریں گی۔
’اس کا مقصد چاند پر جھنڈا گاڑنا یا امیروں کے لیے تفریحی سواری نہیں، بلکہ مستقبل میں یہ ایک کمرشل مارکیٹ بن جائے گی۔‘

شیئر: