Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی دورے، کامیابی کا پلڑا کب کب اور کیوں جُھکا؟

جی وہ بھی ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے ڈیڑھ سال قبل جنوری 2018 کو ٹویٹ کیا  کہ’ہم نے تینتیس ارب ڈالر دے کر غلطی کی، پاکستان نے ہمیں دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا‘ اور یہ بھی وہی ٹرمپ ہیں جو اب واری واری جا رہے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو لیکن اصل بات اس کا برقرار رہنا ہو گا۔
72 سالہ پاک امریکہ تعلقات کو اسی ڈیڑھ سالہ دور کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کبھی تیوریاں چڑھائی گئیں تو کبھی آستینیں، کبھی خزانوں کے منہ کھولے گئے تو کبھی ’ڈومور‘ کے تقاضے ہوتے رہے، اتار چڑھاؤ کا یہ سلسلہ ہے کہ رکنے میں نہیں آ رہا۔
پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورے سے وجود میں آنے والے تعلقات پائوں پائوں چلتے، سنبھلتے، گرتے، اٹھتے رہے ہر دور میں ان کو ماپنے کا پیمانہ سربراہان کے دوروں کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہی دورے جن کے بعد ہر ایک کو ہی کامیاب قرار دیا جاتا رہا ہے مگر حقیقت کیا ہے، کون کون سے دورے کس حد تک کامیاب رہے، امریکی یا پھر پاکستانی مفادات حاوی رہے؟ اس وقت پاک امریکہ تعلقات کی پوزیشن کیا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

ایوب خان نے گیارہ جولائی 1961 میں امریکا کا دورہ کیا.

قیام پاکستان کے بعد روس اور امریکہ کی جانب سے وزیراعظم کو دورے کی دعوت دی گئی تاہم انیس سو پچاس میں لیاقت علی خان نے خاتون اول کے ساتھ پہلا دورہ امریکہ کا کیا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین کی جانب سے پرتپاک استقبال کیا گیا۔
کچھ ناقدین سوویت یونین کا دورہ ٹھکرائے جانے پر معترض بھی رہے۔
یہ سرد جنگ کے اوائل کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد گورنر جنرل غلام محمد، وزیر اعظم محمد علی بوگرہ، وزیر اعظم حسین سہروردی بھی امریکہ کے دورے کیے۔
انہی دنوں پاکستان غذائی قلت کا شکار ہوا اورامریکہ سے مدد کی درخواست کی تو گندم دینے کے وعدے کے ساتھ ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا، انہی دنوں روس نے کپاس کے بدلے گندم دینے کی پیشکش کی لیکن امریکہ نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے آگے بڑھ کر پاکستان کو گندم دے دی۔

ایوب خان دور

پہلے فوجی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے گیارہ جولائی 1961 میں امریکہ کا دورہ کیا جان ایف کینیڈی نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ ان کے لیے سرکاری ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔
یہ دورہ اس لیے بھی بہت اہمیت کا حامل تھا کہ اس وقت بھی روس امریکہ تعلقات کشیدہ تھے، سرد جنگ چل رہی تھی، کمیونزم موجود تھا جو امریکی مفادت کے خلاف تھا اور اس کو پاکستانی تعاون کے بغیر روکنا مشکل تھا اس لیے قدم قدم پر امریکہ کی جانب سے مہربانیاں دکھائی گئیں۔ پاکستانی معیشت اور دفاع کے میدان میں بہت زیادہ تعاون کیا گیا۔ انہوں نے انیس سو باسٹھ اور تریسٹھ میں بھی امریکہ کے دورے کیے۔

یحییٰ خان دور

ملک کی سربراہی جنرل یحیٰی خان کے پاس آئی تو انہوں نے اکتوبر انیس سو ستر میں امریکہ کا دورہ کیا، اس وقت بنگال میں علیٰحدگی کی تحریک چل رہی تھی۔ یحیٰی خان کو بھی بہت پذیرائی ملی ان کے لیے وائٹ ہائوس میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا اور صدر نکسن سے ون ٹو ون ملاقات بھی کی۔
اس کے تقریباً ایک سال بعد دسمبر انیس سو اکہتر میں سقوط ڈھاکہ ہوا۔

بھٹو نے 1973 میں صدر نکسن کی دعوت پر امریکا کا دورہ کیا۔ فوٹو اے ایف پی

ذوالفقار علی بھٹو دور

اس کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے پاس آیا وہ پہلے صدر اور پھر وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے1973 میں صدر نکسن کی دعوت پرامریکہ کا دورہ کیا، اس سے قبل صدر ایوب کے دور میں ہونے والی فوجی سازوسامان کی ترسیل رک چکی تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے بحالی کی درخواست کی گئی لیکن امریکہ کی جانب سے تعاون سامنے نہیں آیا۔ بھٹو نے دوسرا دورہ انیس سو پچھتر میں کیا اگرچہ پی پی کی جانب سے اس کو کامیاب قرار دیا جاتا رہا لیکن اس کے بعد بھی امریکہ کی جانب سے کوئی ’غیر معمولی‘ توجہ نہیں دیکھی گئی۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ بھٹو کا جوہری پروگرام کا حامی ہونا اور’گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘ جیسے بیانات بھی تھے۔

ضیاالحق دور

1977 میں بھٹو حکومت کو گرا کر جنرل ضیا الحق اقتدار میں آئے۔ انہوں نے جو امریکی دورے کیے وہ غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے کیونکہ اس وقت سرد جنگ خاتمے کی جانب بڑھ رہی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہامریکہ کو اس وقت کے حساب سے پاکستان کی جانب سے غیر معمولی کردار کی امید تھی۔ 1980 کے بعد 1982 میں بھی ضیا کے دورے کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ اس دوران پاکستان کے مجوزہ جوہری پروگرام پر بھی بات ہوئی، امریکی صدر کے ساتھ ان کی تخلیے میں ملاقات بھی ہوئی۔ اس دور کے سینیئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت روس افغانستان پر حملہ کر چکا تھا اور یہی وہ لمحہ تھا جب امریکی صدر نے صدر ضیا کو تعاون کے بدلے امدادی پیکج دینے کی پیش کش کی تھی۔ اس وقت پاکستان کے لیے مجوزہ تقریباً ساڑھے تین ارب کا پیکج کانگریس کی منظوری کا منتظر تھا۔
1985 میں بھی صدر ضیا نےامریکہ کا دورہ کیا اور رونالڈ ریگن سے ملاقات کی۔ جبکہ 1986 میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو امریکہ پہنچے تو ان کا بھی زبردست خیرمقدم کیا گیا۔

1995 میں نے نظہر بھٹو نے کلنٹن کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا اس وقت بل کلنٹن صدر تھے۔ فوٹو اے ایف پی

بے نظیر دور

اگست 1988  میں فضائی حادثے میں صدر ضیا کی ہلاکت کے بعد انتخابات ہوئے تو بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں، وہ جارج بش کی دعوت پرجون1989 میں امریکا پہنچیں۔ اس وقت پاکستان کے مجوزہ جوہری پروگرام کی وجہ سے پاکستان کو پابندیوں کا سامنا تھا اس حوالے سے بے نظیر نے مختلف لیڈرز سے ملاقات کے دوران بات کی تاہم وہ پابندیاں برقرار رہیں۔
نوے میں اسمبلیاں ٹوٹنے پر پی پی حکومت ہٹائی گئی اور اس کے بعد آںے والی مسلم لیگ کی حکومت کا بھی یہی حال ہوا، پھر اقتدار میں آنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے 1995 میں امریکہ کا دورہ کیا اس وقت بل کلنٹن صدر تھے، اس دورے کے بھی کچھ زیادہ ثمرات سامنے نہیں آئے کیونکہ اگلے ہی سال صدر فاروق لغاری نے حکومت برطرف کر دی۔
ان کا دوسرا سرکاری دورہ اپریل 1995 میں ہوا جس میں انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔

نواز شریف دور


نواز شریف نے بارک اوباما کی دعوت پر 2013 اور 2015  میں بھی امریکہ کے دورے کیے۔ فوٹو اے ایف پی

تین بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف ستمبر 1997، 98 اور 99 میں وہ تین بار امریکہ پہنچے اس دوران انہوں نے صدر بل کلنٹن سے ملاقاتیں کیں۔ جن میں کارگل کے ایشو پر بھی قدم اٹھائے گئے۔ اسی طرح تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے 2013 اور 2015  میں بھی امریکہ کے دورے کیے اس دوران باراک اوباما صدر تھے۔ ہر بار کی طرح مسلم لیگ کی جانب سے ان دوروں کو کامیاب قرار دیا جاتا رہا لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق ان دوروں سے ملک کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوا۔

مشرف دور

اکتوبر 1999  میں مسلم لیگ ن کے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنے والے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف دس سال تک ملک کے سربراہ رہے انہوں نےامریکہ کے نو دورے کیے۔ اس وقت جارج بشامریکہ کے صدر تھے پرویز مشرف کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات قائم ہوئے، اس دوران ہی نائن الیون کا سانحہ ہوا اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ مشرف دور میں ہی پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر سامنے آیا۔ مشرف دور میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ معیشت اور فوجی معاملات کے حوالے سے بہت تعاون کیا۔
2006میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی امریکہ کا دورہ کیا جو ایک رسمی سا ہی تھا۔

پیپلز پارٹی دور حکومت


وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر بش کی دعوت پر 2008 میں امریکا کا دورہ کیا۔ فوٹو اے ایف پی

دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد پی پی اقتدار میں آئی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے دو ہزار آٹھ میں امریکہ کا دورہ کیا، جبکہ اسی دور میں صدر بننے والے آصف علی زرداری نےامریکہ کے پانچ دورے کیے۔ اس دوران ان کی صدر بش اور اوبامہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔

عمران خان کا دورہ

ابھی تک وزیر اعظم کا دورہ کافی کامیاب دکھائی دے رہا ہے، امریکہ پہنچنے پر استقبال کی ایک آدھ کٹھنائی کے بعد دیگر معاملات ٹھیک ہی چل رہے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار امریکہ میں باقاعدہ عوامی جلسہ کرنے کی روایت بھی ڈالی۔ اس دورے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ آرمی چیف بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔ اس دورے کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔

عمران ٹرمپ ملاقات

امریکی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی مخصوص افتاد طبع کے پیش نظر قیاس کیا جا رہا تھا کہ شاید دورے سے کچھ برامد نہ ہو لیکن یہ رائے درست ثابت نہیں ہوئی۔ سب وقت کے تقاضوں کے مطابق ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے الیکشن کمپئیں میں قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ فوجیوں کو واپس لایا جائے گا۔ اس وقت امریکہ  طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے جو ظاہر ہے پاکستان کی مدد سے ہی ہو رہے ہیں۔ اگلے سال امریکہ کا الیکشن بھی آ رہا ہے اگر اس سے قبل پاکستان طالبان کو مزید مذاکرات پر تیار کرتا ہے اور انہیں اشرف غنی حکومت کو تسلیم کرنے اور کسی بندوبست کا حصہ بننے پر راضی کر لیتا ہے تو یہ بہت امریکہ کے لیے بڑی کامیابی ہو گی۔ کیونکہ اس طرح وہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال سکے گا۔ یہی نکات امریکی صدر کے ذہن میں ہیں۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب امریکا کے اپنے مفادات ہوتے ہیں تو وہ فراخدلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

سول و آمروں کے دورے

پاک امریکا تعلقات کی تاریخ سے عیاں ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہر دور میں آمرانہ حکومتوں کو زیادہ پذیرائی دی جاتی رہی ہے۔ یہ موازنہ ایوب خان کے دور سے لے کر مشرف دور تک کے اور سول حکومتوں کے نمائندوں کے دوروں پر نگاہ ڈال کر کیا جا سکتا ہے۔

شیئر: