Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقاتی کمیٹی فعال نہ ہو سکی

پاکستان میں عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے تاہم آج تک ان انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے قواعد و ضوابط تک نہیں بن سکے اور نہ ہی اس کا کوئی اجلاس ہو سکا۔  
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اعلان کیا گیا تھا کہ حکومت حزب اختلاف کے مطالبے پر مبینہ دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیشن بنانے کو تیار ہے۔
اس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل آل پارٹیز اعلی اختیاراتی کمیٹی سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے پچھلے سال اکتوبر میں بنائی گئی تھی اور اس کی سربراہی وزیر دفاع پرویز خٹک کو دی گئی تھی۔

دھاندلی کا الزام اور آر ٹی ایس کا تنازع

انتخابات کے دن رات بارہ بجے کے قریب انتخابی نتائج کا جدید نظام رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کام کرنا بند کر گیا تھا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی طرف سے نتائج روک کر دھاندلی کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے۔


آل پارٹیز اعلی اختیاراتی کمیٹی سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے پچھلے سال اکتوبر میں بنائی گئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آ ف پاکستان کے سیکرٹری نے رات کے آخری پہر ٹی وی پر آکر قوم کو بتایا کہ آر ٹی ایس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اس لیے ریٹرننگ آفیسرز روایتی طریقہ کار اپنائیں۔
یہ سسٹم نادرا کی طرف سے نتائج کو جلد عوام تک پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ نادرا کے سینئر افسران جنہوں نے آر ٹی ایس موبائل ایپ تیار کی تھی کا دعوی تھا کہ سسٹم ٹھیک کام کر رہا تھا اور اسے الیکشن کمیشن نے  جان بوجھ کر روکا تھا۔
تاہم الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ نتائج آنے پر آر ٹی ایس کریش ہو گیا تھا، سسٹم کریش ہونے کے بعد پریذائیڈنگ آفیسرز کو نتائج آر اوز تک پہنچانے کا کہا تھا۔
انتخابات کے بعد کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آر ٹی ایس نظام کی خرابی سے متعلق اعتراضات کے بعد الیکشن کمیشن نے اس معاملے کو تحقیقات کے لیے حکومت کو دعوت دی تھی۔ اس کے لیے اس نے کیبنٹ ڈویژن کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا تاہم اس پر تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے ایک ترجمان الطاف احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی اور رزلٹ ٹرانسمیشن پر تحقیقات کا کام پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا۔ اس حوالے سے کمیشن نے الیکشن جائزہ رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی تھی اور اس میں آر ٹی ایس کے حوالے سے تمام شکایات کی تفصیلات بھی شامل تھیں اور حکومت کو چند سفارشات بھی بھیجی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں ہزاروں پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے تھے جہاں پر سکیورٹی کے لیے فوج کے تین لاکھ 71 ہزار افسروں اور جوانوں کو تعینات کیا گیا تھا۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے ایک ترجمان الطاف احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی اور رزلٹ ٹرانسمیشن پر تحقیقات کا کام پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا۔ اس حوالے سے کمیشن نے الیکشن جائزہ رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی تھی اور اس میں آر ٹی ایس کے حوالے سے تمام شکایات کی تفصیلات بھی شامل تھیں اور حکومت کو چند سفارشات بھی بھیجی گئی تھیں۔

کمیٹی نے اب تک کیا کیا؟

اپوزیشن کی طرف سے مسلسل دھاندلی کے الزامات کے بعد بالآخر سپیکر قومی اسمبلی نے پندرہ اکتوبر کو ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی تھی جس میں اپوزیشن اور حکومت کی برابر نمائندگی تھی۔ تاہم کمیٹی اب تک دھاندلی کی تحقیقات کا آغاز بھی نہ کر سکی۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر کمیٹی کو غیر فعال کیا۔


پولنگ سٹیشنز پر سکیورٹی کے لیے فوج کے تین لاکھ 71 ہزار افسروں اور جوانوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کمیٹی کے رکن راجہ پرویز اشرف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پی ٹی آئی الیکشن ہاری تھی تو چار حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگا کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اسلام آباد میں حکومت کے خلاف طویل دھرنا دیا تھا۔ مگر جب 2018کے انتخابات کے بعد خود پر یہ الزام آیا تو دھاندلی کی تحقیقات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کے بعد کمیٹی بنانے کی ہدایت کی تھی مگر اس کمیٹی کا آج تک ایک بھی اجلاس نہ بلا کر حکومت نے ثابت کیا کہ وہ دھاندلی کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ’کمیٹی کا اجلاس بلانا اسکے چئیرمین پرویز خٹک کی زمہ داری دی مگر انہوں نے آج تک اجلاس بلانے کی زحمت نہیں کی ۔‘
اس سوال پر کہ اپوزیشن نے خود بھی اس معاملے پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کے رویے کو دیکھنے کے بعد اپوزیشن کو معلوم ہو گیا کہ اس کمیٹی کا کوئی فائدہ نہیں۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اس لیے شدید تھے کہ متنازعہ حلقوں میں امیدواروں کو فارم ۴۵ ہی نہیں دیے گئے۔ یاد رہے کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کا  عملہ پابند ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر رزلٹ تحریری طور پر فارم ۴۵ کی شکل میں ہر امیدوار کے حوالے کرے۔ مگر دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کئی حلقوں سے شکایات ملی تھیں کہ امیدواروں کے نمائندوں کو یہ فارمز نہیں دئے گئے ۔
کمیٹی میں مسلم لیگ نواز کی نمائندگی کرنے والے سنیٹر جاوید عباسی کے مطابق ایک سال کے بعد بھی کمیٹی کے قواعد وضوابط (ٹی او آرز ) بھی طے نہیں کیے جا سکے۔۔ حکومت نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور حکومت کے دعوں کے باجود عملی طور پر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس سے الیکشن کے دوران شفافیت کی تصدیق ہو سکتی۔

حکومتی موقف

اس حوالے سے حکومتی موقف کے لیے اردو نیوز نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور کمیٹی کے رکن فواد چوہدری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کا کام اس لیے آگے نہیں بڑھ سکا کہ اس کے ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن میں  اختلاف ختم نہیں ہو سکا۔  انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ ضابطہ کار بنا کر اپوزیشن کو بھیجا گیا مگر اس پر اعتراض کیا گیا اس کے بعد دوبارہ مسودہ سپیکر کو بھیجا گیا ہے۔
انہوں نے دھاندلی کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ٹی ایس سسٹم فیل ہونے کی بات بھی غلط ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس کمیٹی کا کوئی مستقبل ہے کیوں کہ اپوزیشن کی بھی اس کمیٹی اور تحقیقات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

شیئر: