Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کے چرسی تکے میں نشہ کتنا ہے؟

پشاور کے ڈبگری بازار میں رنگا رنگ چارپائیوں اور بستروں کی دکانوں کے بیچ رستے پر چلتے جائیں تو آپ کو ایک طرف مشہور زمانہ پشاوری چپلوں (جن کو آج کل خان چپل بھی کہا جاتا ہے) کی دکانیں نظر آئیں گی اور دوسری طرف گاڑیوں کے پرانے پرزوں (کابلی پرزوں)  کے مراکز اور ڈاکٹروں کے کلینکس۔
ان کے آس پاس گزرتے آپ نمک منڈی چوک پہنچیں گے جہاں ہر طرف دکانوں کے باہر ننگ دھڑنگ (بغیر کھال کے) دنبے اور بکرے لٹکے نظر آئیں گے، جو یہاں آنے والے گوشت خوروں کی بھوک مٹانے کے منتظر ہیں۔
انہی دکانوں کے بیچ ایک جگہ پر بہت رش لگا ہوگا، جہاں لوگوں کی بھیڑ کے درمیان قصاب آمنے سامنے بیٹھ کران کی فرمائش کے عین مطابق دھڑا دھڑ گوشت کاٹ رہے ہیں اوراس کے ٹکڑے کڑاہیوں میں ڈال رہے ہیں۔

گاہک قصاب کو اپنی مرضی کا گوشت آرڈر کررہے ہیں

آپ جوں جوں اس جگہ کے قریب جاتے جائیں گے، گوشت کو تڑکہ لگنے کی بھینی بھینی خوشبو آپ کے نتھنوں میں داخل ہوگی۔
ایک بھیڑ ہے جو اس خوشبو کی کشش میں کھنچی چلی جاتی ہےاور اشتیاق ان کے چہروں پر نمایاں ہے۔
یہ پشاور کی نمک منڈی کا ’نثارچرسی تکہ شیش محل ریسٹورنٹ‘ ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی اپنے ذائقے کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔
یہاں گوشت کے منفرد ذائقے اور لذت کے باعث بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کڑاہی میں چرس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
  یہ جاننے کے لیے ہم بھی اس ریسٹورنٹ پہنچے تو کاؤنٹرسے اندر داخل ہوتے ہی ایک روائتی پشتون ماحول میسرآیا۔ لوگ چارپائیوں اورروائتی تختوں پر بیٹھے تھے، گپیں ہانک رہے تھے اور تکوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔

شام کا وقت شروع ہوتے ہی رش بڑھنے لگتا ہے۔

ان تکوں کو مزیدار بنانے کا کام رستوران کے دروازے سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں بیٹھے دو قصاب دنبوں کے جسم سے آپ کے پسندیدہ حصے آپ کے آرڈر پر کاٹ کر کڑاہی میں ڈالتے ہیں اور ان کو باورچی خانے میں بھیج دیتے ہیں، جہاں پر آپ کے آرڈر کی تفصیلات پہلے ہی ایک پرچی پر لکھی موجود ہوتی ہیں۔
باورچی خانے میں کئی باورچی بیک وقت متعدد کڑاہیوں میں مہارت سے چمچے ہلا رہے ہوتے ہیں اور چولھوں کے والو کم اورزیادہ کر کے آگ کی مطلوبہ آنچ کڑاہیوں کو دے رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب رائتے اور سلاد کے بننے کا انتظام ہورہا ہوتا ہے۔
ایک کڑاہی پر دھیان مرکوز کیے ہوئے وہاں کے سینیئر باورچی مقام پٹھان شینواری نے بتایا کہ جب سے نمک منڈی بنی ہے تب سے ہی یہاں نمکین گوشت بنتا اوراستعمال ہوتا آ رہا ہے۔
ان کے مطابق ’یہاں کی کڑاہی کی کوئی خاص ترکیب نہیں بلکہ یہ بغیر مصالحہ جات کے بنتی ہے اور یہاں مٹن کے تکے(خشک تکے) بھی نمکین ہوتے ہیں اور ان پر بھی مصالحہ نہیں ڈالا جاتا۔‘

یہاں کڑاہی دنبے کی چربی میں بنتی ہے۔

کڑاہی کی تیاری کے بعد اس پرآرڈر کی پرچی رکھتے ہوئے مقام پٹھان شینواری نے کہا کہ انہوں نے جب سے ہوش سنبھالا یہی کام کر رہے ہیں۔
’یہاں کا ہر باورچی ماہر ہے اور یہ سب ہمیشہ دل سے کڑاہی بناتے ہیں تب ہی تو لوگوں کو پسند آتی ہے، وہ بار بار یہاں آتے ہیں اور دل سے بنانا ہی ہماری ترکیب ہے۔‘
نثار چرسی تکہ تقریباً 60 سال سے نمک منڈی میں قائم ہے۔ نثار چرسی کا کاروبار پہلے نثارخان کے والد  حاجی محمد اسحاق  نے شروع کیا تھا جو بعد میں ان کے بیٹوں نے سنبھالا۔
نثار چرسی تکہ کا نام کیسے پڑا اور اس کو نثار چرسی کیوں کہا جاتا ہے اس کے ساتھ چرس کا آخر تعلق کیا ہے؟

ناصر خان، حاجی نثار عرف نثار چرسی کے بھائی ہیں جنہوں نے آج کل کاروبار کو سنبھالا ہوا ہے۔

اس سوال کے جواب میں حاجی نثارعرف نثار چرسی کے بھائی ناصر خان  کہتے ہیں کہ ان کے والد نے یہ کاروبار شروع کیا تھا اور پھر ان کے بعد ان کے بھائی حاجی نثار نے ان کا کاروبار سنبھالا۔
’یہاں میرے والد صاحب بیٹھا کرتے تھے، چرسی کا یہ لفظ ان کی وجہ سے پڑا ہے۔ یہاں وزیرستان، میران شاہ اور بھی بہت جگہوں سے لوگ آتے تھے۔ میرے والد کبھی کبھی سگریٹ (چرس) پیتے تھے، 35 برس ہوگئے ہیں کہ میرے والد اب یہاں نہیں آتے، میں نے اور میرے بھائی نے ان کو کہا ہے کہ اب آپ آرام کریں، ہم کام کریں گے۔ ان کے بعد یہاں میرے بڑے بھائی کام کرتے تھے اور وہ بھی سگریٹ (چرس) پیتے تھے اور اب بھی ان کے ہاتھ میں سگریٹ (چرس) ہوتا ہے۔ وہ اس حد تک عادی ہو گئے ہیں جب وہ سگریٹ (چرس) نہیں پیتے تو پھر ان سے صحیح طور پر کام نہیں ہوتا۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت سگریٹ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ جگہ ’نثار چرسی‘ کے نام  سے مشہور ہو گئی ہے۔‘
اردو نیوز کے استفسار کہ کیا وہ کڑاہی میں ذائقہ لانے کے لیے اس میں بھی چرس ڈالتے ہیں، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، ناصرخان ہنس پڑے۔
’’نہیں، ایسا بالکل نہیں۔ کڑاہی میں چرس استعمال نہیں ہوتا۔ تاہم ’نثار چرسی‘ کا نام دنیا میں اب ہماری ایک پہچان بن گیا ہے۔‘‘
ناصر خان نے بتایا کہ انکی کڑاہی میں ذائقے کی اصل وجہ دنبے کے گوشت کا اپنی چربی میں پکنا ہے۔

باورچی خانے میں چولھوں پر بے شمار کڑاہیاں ہوتی ہیں جس کو دو باورچی بناتے ہیں

ان کے قصاب گوشت کاٹتے وقت دنبے کی پشت پر اکٹھی ہوئی چربی بھی کاٹ دیتے ہیں اوراس کو پھر ہر کڑاہی کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
گوشت کے ساتھ چربی ڈالنے کے بعد پھرکڑاہی میں صرف سبز مرچ اور ٹماٹر ڈالے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’اس کڑاہی میں کسی قسم کا گھی استعمال نہیں ہوتا۔ یہ گوشت صرف اپنی چربی میں پکتا ہے اور یہی اس کے ذائقے کی وجہ ہے۔‘ 
 چرسی ہوٹل کا ماحول بھی بہت روائتی ہے۔
یہاں چارپائیاں اور کرسیاں رکھنے کے علاوہ روایتی تخت بھی بنائے گئے ہیں، جہاں لوگ گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہیں، کھانے کے انتظار میں گپ شپ کرتے ہیں۔
کہیں پر آپ کو ایسا بھی ایک آدھ منظر ملے گا کہ کوئی سگریٹ کا اشارہ دے رہا ہو اور کہیں سے چرس کی بو کی لہر آئے گی مگر یہ کام کھلم کھلا نہیں ہوتا بلکہ رازدارانہ طریقے سے ہوتا نظر آئے گا۔
 

چرسی تکہ کھانے کے لیے مہمانوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔

چرسی کڑاہی گاہک کو پیش کرتے وقت روٹی یا نان کڑاہی کے اوپر الٹا رکھی جاتی ہیں جس سے ایک تو کڑاہی گرم رہتی ہے اور دوسرا نیچے والی روٹیوں کو کھانے کا مصالحہ لگ جاتا ہے جسے کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
یہاں پر دنیا بھر سے لوگ صرف یہ کڑاہی کھانے آتے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے علاقے گوجرخان سے صرف یہ تکہ کھانے پشاور آنے والے محمد ثاقب نے اردونیوز کو بتایا کہ انہیں چرسی کا ذائقہ واقعی بہت لذیذ اور منفرد لگا۔
’کھانے کا بہت مزا آیا، چربی کی کڑاہی کا الگ سا ذائقہ ہے، یہاں کے لوگوں سے بات چیت ہوئی، بڑا اچھا لگا پٹھانوں کے شہر میں آ کے باتیں کرنا۔‘

یہاں کے نمکین تکے بہت مشہور ہیں جس کو بار بار آرڈر کیا جاتا ہے۔

ثاقب کے قریب ہی چارپائی پر بیٹھے گپ شپ میں مصروف کچھ دوست افغانستان اور پشاور کی کڑاہیوں اور تکوں کا ذکر کر رہے تھے، ان سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہاں افغانستان کے مہمانوں کو لائے ہوئے ہیں۔
فاروق داد نے بتایا کہ ان کے افغان دوستوں نے خاص طور پر چرسی تکہ کھانے کی فرمائش کی تھی۔
’یہ ہمارے افغان مہمان ہیں، ان کو ہم نے دعوت دی اور ان کی فرمائش تھی کہ ان کو تکے کھلائے جائیں، تو ان کو لایا ہوں کہ پروگرام کریں اور لطف اٹھائیں، یہ یہاں کی مشہور جگہ ہے۔‘

کھانے کے ساتھ سلاد اور چٹنی بھی پیش کی جاتی ہے۔

ناصر خان نے بتایا کہ جس دن شہر کا موسم اچھا ہو اس دن کاروبار بھی زیادہ چلتا ہے۔ ’ویسےعام دنوں میں تقریباً 40 سے 45 کے قریب دنبے یہاں پر کھائے جاتے ہیں۔‘
لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے ان کے کاروبار پر منفی اثر بھی پڑا ہے۔ ناصر خان کا کہنا تھا کہ ’کاروبار کچھ مندی کا شکاربھی ہے کیونکہ بی آر ٹی منصوبے کی وجہ سے سڑکیں بند کر دی گئی ہیں،لہٰذا دیگر علاقوں سے آنے والے گاہک اب نہیں آپاتے۔ خصوصاً پنجاب سے آنے والے لوگ اسی رش کی وجہ سے نہیں آتے۔‘
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور میں اسلامیہ کالج کے سامنے بھی برانچز کھولی ہیں ، لیکن لوگ اب بھی نمک منڈی والے پرانے ریسٹورنٹ کو ہی روائتی چرسی تکہ سمجھتے ہیں۔

شیئر: