Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں پابندیوں پر امریکہ کی تشویش

امریکہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پیش نظر دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سیمت تمام ایشوز براہ راست مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس وقت تمام ایکٹرز کے درمیاں فوری مذاکرات کی ضرورت ہے تاکہ ٹینشن کو کم کیا جا سکے اور جنوبی ایشا میں ملٹری کشیدگی میں اضافے سے بچا جا سکے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکہ تمام فریقیں پر زور دیتا ہے کہ وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔
کشمیر کی بگڑتی صورتحال کے بارے میں ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو کشمیر میں گرفتاریوں پر تشویش ہے۔ ’ ہمیں کشمیر میں تسلسل سے گرفتاریوں اور کشمیر کے رہائشیوں پر مسلسل پابندیوں کی رپورٹس پر تشویش ہے‘  
خیال رہے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کترنے کے بعد کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بند ہیں اور شہریوں گھروں سے نکلنے پر پابندی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکہ تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر امن و امان برقرار رکھیں۔

ایلس ویلز نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے متعلق امریکا کو پیشگی آگاہ کرنے کی خبروں کی تردید کی. فوٹو اے ایف پی

اقوام متحدہ کا کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار

اقوام متحدہ نے بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کیے جانے اور اضافی فوج کی تعیناتی کے بعد علاقے میں انٹرنیٹ، فون اور ذرائع نقل و حمل پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ایک جاری ویڈیو پیغام میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں، وادی میں پہلے سے جاری صورت حال کو ‘نئی سطح’ پر لے گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے خطے میں انسانی حقوق کی صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں آپ کی توجہ کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے 8 جولائی 2019 کو جاری کی گئی رپورٹ پر مبذول کروانا چاہتا ہوں جس میں وادی کی بدترین صورت حال کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح مواصلات کے نظام کو متعدد مرتبہ بند کیا گیا، سیاسی رہنماوں اور کارکنان کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا جبکہ احتجاج کو روکنے کے لیے بھرپور طاقت کا استعمال اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے، جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔

ترجمان نے کہا کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر وادی میں مواصلات کے نظام پر عائد پابندیوں دیکھائی دیتی ہیں، ان پابندیوں کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی، جس میں سیاست دانوں کو حراست میں رکھا گیا اور پُر امن اسمبلی پر پابندی لگادی گئی۔

دوسری جانب امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے متعلق امریکا کو پیشگی آگاہ کرنے کی خبروں کی تردید کی۔
ایک بیان میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ’میڈیا رپورٹنگ کے برخلاف، بھارتی حکومت نے امریکی حکومت کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بارے میں نہ تو پہلے سے بتایا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مشاورت کی ہے‘۔
خیال رہے اس سے پہلے یہ افواہیں گردش کر رہی تھی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل امریکا کو اعتماد میں لے لیا تھا۔
 
دوسری طرف اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل کے چیف آف سٹاف ماریہ لوسیا ریبیرو سے ملاقات کی۔
 ملیحہ لودھی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل انڈیا کی جانب سے ’مقبوضہ‘ جموں کشمیر میں پیدا کیے جانے والے بحران میں اپنا کردار ادا کریں اور انڈیا سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کروائیں۔
انڈیا نے پیر کو اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے پہلے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کے نقل و حرکت پر پابندی عائد کی تھی اور انٹرنیٹ، موبائل فون اور دوسرے کمیونکیشن سسٹم معطل کر دیا تھا جو کہ ابھی تک جاری ہے۔
پاکستان نے انڈیا کے اس اقدام کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ جموں  کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
 
منگل کو پاکستان نے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا اور انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔  یہ فیصلہ  وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔ پاکستان نے انڈیا سے اپنا ہائی کمشنر بھی واپس بلالیا  ہے اور تجارت بھی معطل کر دی ہے۔

شیئر: