Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: چین پاکستان کے لیے کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے کو پاکستان کے ساتھ ساتھ چین نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ چین پاکستان کا ہمسایہ اور سب سے قریبی دوست ملک مانا جاتا ہے، شاید اسی لیے کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک کے موقف میں یکسانیت بھی پائی جاتی ہے۔
چین کی جانب سے جو بیان سامنے آیا ہے یہ کتنی اہمیت کا حامل ہے اور یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ چین کا اس ساری صورت حال میں آئندہ کردار کیا ہو گا، اس حوالے سے اردو نیوز نے ماہرین سے رابطہ کیا اور ان سے چین کے ردعمل اور مستقبل میں کردار کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی۔

چین کا ردعمل کیسا تھا؟

 بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ لداخ ایک متنازع علاقہ ہے اور اس مسئلے پر 1962 میں چین اور انڈیا کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے، لہٰذا چین نے انڈین اقدام کو یکسر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

 


پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانے کا اعلان کیا ہے، تصویر: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین کی جانب سے ہمیشہ سفارتی حمایت ملتی رہی ہے تاہم اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ عملی طور پر پاکستان کی کوئی مدد کرے گا تو یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے عالمی سطح پر اس کے منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
دفاعی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر چین کے بہت اہم بیانات سامنے آئے ہیں۔ چین بھی پاکستان کی طرح اس مسئلے کا ایک فریق ہے اور اس نے انڈیا کا سارا منصوبہ مسترد کر دیا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ چین نے انڈیا کو واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ لداخ کی حیثیت میں تبدیلی ان کے علاقے پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اب یہاں کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ چین نے اس ساری صورت حال میں کیا کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ چین کا سفارت کاری کا اپنا ایک انداز ہے، وہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کا حالیہ ردعمل پاکستان  کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنا ہے۔

 


چین نے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کا انڈین منصوبہ مسترد کر دیا ہے، تصویر: اے ایف پی

کشمیر کے معاملے پر چین کے بیان کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اگرچہ انڈیا نے جو کرنا تھا وہ کر دیا ہے لیکن آئندہ اسے سوچنے اور سنبھلنے کے لیے تنبیہہ ہو گئی ہے اور وہ مزید آگے بڑھنے سے رکے گا۔
شاہ محمود قریشی کے دورہ چین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کشمیر کی صورت حال پر بات کرنے کے لیے وزیر خارجہ کی جگہ خود وزیراعظم عمران خان کو چین جانا چاہیے تھا، بہرحال مشاورت کے لیے وزیر خارجہ کا چین جانا بھی ضروری اور اہم ہے۔

سلامتی کونسل میں چین کا کردار اہم

پاکستان کی جانب سے کشمیر کی حالیہ صورت حال کو اقوام متحدہ میں لے جانے پر ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ سلامتی کونسل میں چین کی پاکستان کے لیے حمایت بہت حوصلہ افزا جبکہ انڈیا کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتی ہے۔

 


انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ نے 5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کا اعلان کیا، تصویر: اے ایف پی

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ چین کے مطابق وہ کشمیر کی صورت حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور اس صورت حال میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانا چاہتا ہے اور چین سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور ویٹو کا حق رکھتا ہے۔ اس حوالے سے چین کی حمایت پاکستان کے لیے بہت اہم ہو گی اور ضرورت پڑنے پر وہ پاکستان کے لیے ویٹو کا حق استعمال کر سکتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل میں جانے کے فیصلے اور چین کے کردار کے حوالے سے شمشاد احمد خان نے ڈاکٹر مہدی حسن اور امجد شعیب کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ گلوبل پاور کی حیثیت سے چین کا اہم کردار ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے پاکستان کو چین کی حمایت درکار ہو گی۔

کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی پر چین کا موقف

چین نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی جغرافیائی تقسیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے لداخ کی انڈین یونین میں شمولیت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

 


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چین بھیجنے کا فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں کیا گیا، تصویر: اے ایف پی

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں انڈیا کو لداخ میں سرحد کی تبدیلی سے باز رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسے چین کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ کے بیان میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے  پاکستان اور انڈیا کو باہمی رضامندی اور پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔

شیئر: