Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان میں انڈین فلموں پر تو پہلے ہی پابندی نہیں تھی؟‘

پاکستان میں انڈین فلموں پر پہلے بھی کئی بار پابندی لگ چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنی ایک تازہ ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی سینما میں انڈین فلموں کی نمائش نہیں ہوگی۔
ان کے مطابق ’ڈراموں، فلموں اور اس طرح کا انڈین مواد پاکستان میں نشر ہونے پر مکمل پابندی ہوگی۔ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ ہر وہ اقدام کریں گے جس سے عظیم کشمیریوں کے بے مثال حوصلے مزید بلند ہوں۔‘
معاون خصوصی کا یہ بیان اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سینماؤں میں انڈین فلموں اور ڈراموں پر پابندی رواں ماہ کے آغاز میں اس وقت عائد کر دی گئی تھی جب 14 فروری کو جموں و کشمیر میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
رواں سال مارچ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ نے حکم دیا تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر انڈیا کا کوئی مواد نشر نہ کیا جائے۔ انڈیا کے اشتہارات، ڈرامے اور فلمیں بھی اس پابندی کی زد میں آ گئے تھے۔
تاہم اب ایک بار پھر وزیراعظم کی معاون خصوصی کے اس بیان سے نئے سوالات نے جنم لیا ہے کہ کیا حکومت سینما مالکان کو اس حوالے سے دوبارہ کوئی نوٹیفیکشن جاری کرنے جا رہی ہے۔
پاکستان میں پرائیویٹ سینماؤں کی چین کے مالک اور مشہور پروڈیوسر ندیم مانڈوی والا نے اردو نیوز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی نیا نوٹیفیکشن جاری نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں انڈین فلموں اور ڈراموں پر تو پہلے سے ہی پابندی عائد ہے، فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے شاید دوبارہ یقین دہانی کروانے کے لیے کہا ہوگا کہ ملک میں انڈین فلمیں نہیں چلیں گی۔‘
ان کے مطابق ’جب حکومت نے انڈیا کے ساتھ ہر طرح کی تجارت بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اب وہاں سے کچھ بھی نہیں آئے گا، چاہے وہ فلمیں ہوں یا کچھ اور۔‘
دوسری طرف سوشل میڈیا صارفین بھی فردوس عاشق اعوان کے اس اعلان پر انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
معاون خصوصی کی ٹویٹ کے جواب میں عقیل علی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ تو پہلے ہی پابندی نہیں لگائی تھی فروری میں۔ یا پھر ہٹا دی تھی؟ اگر ہٹا دی تھی تو پھر لگائی کیوں تھی؟‘

امداد خان نام کے ایک ٹوئٹر ہینڈل نے جواب دیا کہ ’محترمہ اس پر عمل درآمد ضروری ہے اور ساتھ سزا بھی تجویز کی جائے کہ اگر کسی نے دکھائی تو اتنی سزا ملے گی اور کیبل پر جو ان کی فلمیں دکھائی جاتی ہے پلیز اس کو بھی بند کروائیے اور دکھانے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔‘

ایک صارف نے معاون خصوصی کے اس اعلان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’اچھا قدم ہے، نئی نسل کو انڈیا کے زہریلے پراپیگنڈے سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ ان کی موجودہ فلموں میں عریانی، فحاشی اور پاکستان مخالف پراپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔‘

رضا کاظمی نامی ٹوئٹر ہینڈل نے مطالبہ کیا کہ ٹی وی پر جو انڈین اشتہارات چل رہے ہیں وہ بھی تو رکوائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کشمیریوں سے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی ہوگا اور پاکستان کے اشتہارات میں کام کرنے والوں کا بھلا بھی۔‘

شیئر: