Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آپ ہمیں مرنے کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں‘

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے باہر آنے والے ہی وہاں کی خبروں کا واحد ذریعہ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں زندگی جیسے ٹھہر گئی ہے۔ انٹرنیٹ، ٹیلی فون اور رابطے کے دوسرے ذرائع معطل ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات جاننے کا واحد ذریعہ وادی سے آنے والے لوگ ہیں جو علاقے کی تازہ ترین صورتحال کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
اردو نیوز نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے آنے والے ایسے چند افراد سے رابطہ کیا اور صورتحال جاننا چاہی۔ تمام افراد نے وہاں عید سے قبل شدید خوف کی فضا کا حال بیان کیا۔
انڈیا میں ملازمت کرنے والے شبیر احمد (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ سری نگر کے جنوبی حصے میں رہتے ہیں اور عید منانے گھر گئے تھے۔ تاہم گزشتہ چند دنوں کے حالات کے بعد انہوں نے عید گھر سے دور منانے کا فیصلہ کیا۔
’مجھے محسوس ہو گیا کہ کشمیر میں صورتحال قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ انڈیا نے تمام راستوں کو بلاک کر دیا ہے اور رابطے کے بھی سارے ذرائع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ایسے میں بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہے جو یکطرفہ رپورٹنگ کر رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے اکثر علاقوں میں کیبل ٹی وی اور سیٹلائٹ چینلز پر بھی پابندی ہے اور انڈیا کی حکومت نے چند بیوروکریٹس اور پولیس افسران کو آپس میں رابطے کے لیے سیٹلائٹ فونز دیے ہیں۔ باہر کی دنیا کو جو بھی اطلاع یا خبر دی جا رہی ہے وہ ان کے سیٹلائٹ فونز کے زریعے دی جاتی ہے۔

 


انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں انٹرنیٹ اور فون سروس مکمل بند ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

شبیر احمد نے بتایا کہ لوگ اس لیے خوفزدہ نہیں کہ انڈین حکام انہیں نقصان پہنچائیں گے یا قتل کر دیں گے بلکہ اس لیے کہ اگر ایسا ہوا بھی تو دنیا کو خبر تک نہیں ہو گی۔
’جب میں (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیرسے نکلنے کے لیے اپنا سامان باندھ کر آ رہا تھا تو میری چھوٹی بھتیجی نے قریب آ کر مجھے کہا  کیا آپ ہمیں یہاں تنہا مرنے کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں؟ اس کے سوال پر میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ خوف ہر گھر پر طاری ہے۔ ’جب میں ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو عام انڈین مزدوروں اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو علاقہ چھوڑتے جاتے دیکھا۔ اس دفعہ ان کا کاروبار بھی گیا۔‘
تاہم شبیر نے بتایا کہ فوج کی بھاری نفری کے زیرانتظام چلائے جانے والے ایئر پورٹ کے اندر ماحول یکسر مختلف تھا۔ ’وہاں کیبل ٹی وی چل رہا تھا اور خوشحال انڈین سیاح ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے۔‘
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے بدھ کو دہلی واپس آنے والے صحافی احمر خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سری نگر میں رپورٹنگ کے لیے کیا گیا یہ دورہ  میری زندگی کا مشکل ترین ٹرپ تھا حالانکہ یہاں میرا گھر ہے۔‘
اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی احمر خان نے لکھا کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں انہوں نے کبھی اتنی پابندیاں اور اتنی فوج نہیں دیکھی۔

 


کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد انڈیا کے تمام ایئرپورٹس پر سیکورٹی سخت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

خالد نامی ایک اور کشمیری نے سری نگر سے واپسی پر اپنی ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں صورتحال بہت خراب ہے۔ کبھی ایسی صورتحال کم ازکم اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔
’لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے نہ صرف آزادی سے نہیں جی پا رہے بلکہ وہ ہر طرح کی اطلاعات اور رابطوں سے محروم ہیں۔ انہیں نہیں پتا کہ ان کے گھر کے باہر کیا ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں افواہوں کا بازار گرم ہے اور کسی کو پتا نہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
خالد نے بتایا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے اداس لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’جب اپنے والد کو آنے سے پہلے خدا حافظ کہا تو ایسا لگا کہ ہم دونوں ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہے ہیں۔‘
دوسری طرف ترکی میں مقیم کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی بابا عمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے عید پر گھر جانا تھا اور اس سلسلے میں خریداری بھی کر لی تھی مگر انڈین اقدام کے بعد ان کی تیاری ادھوری رہ گئی۔
بابا عمر جو ترکی کے سرکاری ٹی وی سے منسلک ہیں ہر عید اپنے والدین کے ساتھ گزارتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین دنوں سے ان کی خاندان کے افراد سے بات نہیں ہو پائی۔ ’کچھ معلوم نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی کشمیر میں انٹرنیٹ سروس معطل ہوئی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لینڈ لائن پر بھی انٹرنیٹ بند ہو جائے اور انفارمیشن کا اتنا مکمل بلیک آوٹ ہو جائے۔

شیئر: