Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب پیرس نازی قبضے سے آزاد ہوا!

اگست 1944 میں پیرس کے عام باشندے نازی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جن کی قیادت مزاحمت کار کر رہے تھے اور انہیں عام کارکنوں، خواتین اور یہاں تک کہ پادریوں کا ساتھ حاصل تھا۔
چھ دنوں تک گلیوں میں ہونے والی جھڑپوں اور گھات لگا کر حملوں کے بعد فرانسیسی اور امریکی فوجیوں نے نازی قبضے کے خلاف برسر پیکار پیرس کے باشندوں کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہو گئے جس کے بعد پیرس پر چار سالہ نازی قبضے کا خاتمہ ممکن ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس کے رہنما چارلس ڈیگال نے 25 اگست کو سٹی ہال کے باہر اعلاں کیا تھا کہ۔۔۔’پیرس مشتعل ہوا، پیرس ٹوٹا اور پیرس شہید ہو گیا، لیکن پیرس آزاد ہو گیا، خود ہی آزاد ہو گیا اور اس کے لوگوں نے اسے آزاد کیا۔‘
ہٹلر کی فوج کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت کا آغاز چھ جون کو نارمندی کے ساحل پر ہزاروں امریکی، برطانوی اور کینیڈین فوجیوں کی آمد کے ساتھ ہو گیا۔

جرمن  فوج کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت کا آغاز چھ جون کو نارمندی کے ساحل پر امریکی، برطانوی اور کینیڈین فوجیوں کی آمد کے ساتھ ہو گیا۔ فوٹو اے ایف پی

نارمنڈی میں کئی ہفتوں تک مار کھانے کے بعد اتحادی فوجیں آخر کار پیرس کے مشرق کی طرف پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اتحادی افواج نے پیرس کے جنوب میں اورلینز اور چارٹرس کو 17 اگست کو نازیوں سے واپس لے لیے۔
اتحادی افواج فرانس کے دارالحکومت کی جانب جانے کے بجائے براہ راست جرمنی کے بارڈر کی طرف جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کیونکہ پیرس میں مشکل اور اربن جنگ کا خطرہ انہیں درپیش تھا۔
امریکی جنرل عمر بریڈلے نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’پیرس ہمارے جنگی نقشے میں سیاہی کے ایک نقطے سے زیادہ کچھ نہیں تھا جسے ہم نے بائی پاس کرکے رائن کی طرف نکلنا تھا۔‘
لیکن پیرس کے لوگ بے صبر واقع ہوئے۔ فرانس کی جلاوطن حکومت کے سربراہ ڈیگال کی صبرکی اپیل کے برخلاف پیرس والوں نے مزاحمت شروع کر دیں۔

فرانس کے جلاوطن حکومت کے سربراہ ڈیگال کی صبرکی اپیل کے برخلاف پیرس والوں نے مزاحمت شروع کر دیں۔ فوٹو اے ایف پی

18 اگست کو فرنچ فورسز آف انٹیریئر کے کمیونسٹ سربراہ ہنری رال تنگوے نے عوامی مزاحمت کی کال دی۔ اس سے اگلے دن ڈیگال کے حامی گروپ نے بھی مزاحمت کی کال دیں جس کے بعد پیرس میں ہفتہ بھر کی انارکی کا آغاز ہو گیا۔ ۱۹ اگست کو عام ہڑتال کے باعث  ٹرین اور میٹروز بند ہوگئے۔ پہلے سے ہڑتال پر گئے ہوئے 3000 پولیس اہلکاروں نے پولیس ہیڈکوارٹرز پر قبضہ کر لیا اور فرانس کا پرچم دوبارہ اس پر لہرا دیے۔
پولیس ہیڈکوارٹرز میں لڑائی سے چند دنوں کے اندر 170 پولیس اہلکار مارے گئے۔ چھوٹے چھوٹے ٹولیوں میں لوگوں نے جرمن فوجیوں اور گاڑیوں پر حملے شروع کر دیے اور گلیوں میں جرمن افواج اور عوام کے درمیاں خونریز تصادم ہوئے۔
جرمنی کے تقریباً 16 ہزار فوجی اور 80 ٹینکیں جنرل ڈیٹرچ وون کولٹٹز کے زیر کمان پیرس شہر میں موجود تھے۔ جنرل ڈیٹرچ کولٹٹز ہوٹل میرس میں محصور تھے۔ 19 اگست کو سویڈن کے قونصل جنرل نے جنرل کولٹٹز کو 45 منٹس کی جنگ بندی پر راضی کر لیا جوکہ اگلے دن بھی قائم رہا۔  اس جنگ بندی نے مزاحمت کاروں کو منظم ہونے کا موقع دیا۔
22 اگست سے پیرس کی سڑکوں پر رکاوٹیں بڑھنا شروع ہو گئی جوکہ جلائے گئے گاڑیوں، مین ہول کے کورز اور دوسری اشیا سے کھڑی کی گئی تھی۔
مزاحمت کی قیادت کرنے والے لیڈروں میں سے ایل مریس کریگل والریمونٹ نے 2004 میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویوں میں بتایا تھا کہ 36 گھنٹوں کے اندر پیرس کی سڑکوں پر 600 سے زائد رکاوٹیں کھڑی کی گئی۔
’کچھ رکاوٹیں تو شاہکار تھی جو کہ دستکاروں نے بنائی تھی اور ٹینک تک کو روک سکتے تھے۔ بعض تو ہلکے تھے لیکن جرمنوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کونسی رکاوٹ مضبوط ہے۔‘

26 اگست کو ڈیگال جنرل لوک لے اور دوسرے فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لاگوں نے ان کا استقبال کیے۔ فوٹو اے ایف پی

مزاحمت میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوگیا اور مزحمت کاروں نے ٹاؤن ہال کا قبضہ حاصل کر لیا اور جرمن فوج کو مخصوص علاقوں تک محدود کر لیں۔
اس دوران اے ایف پی کے رپورٹر نے جرمنی کے بدنام خفیہ پولیس گسٹاپو کے اہلکاروں کو فائلیں جلدی میں جلاتے ہوئے دیکھا۔  22 اگست کو اتحادی افواج کے کمانڈر امریکی جنرل آئیزن ہاور اس بات پر راضی ہوگئے کہ فرانسیسی فوجوں کو پیرس جانا چاہیے۔
اس سے اگلے دن فرانسیسی کمانڈر جنرل فلپ لوک لے اپنے سیکنڈ آرمرڈز کمانڈ کی قیادت کرتے ہوئے پیرس کے لیے روانہ ہوگیا۔
24 اگست کی شام کو پہلا فرانسیسی ٹینک پیرس میں داخل ہوگیا اور رات 9 بجے کے قریب  سٹی ہال پہنچ گیا۔
اے ایف پی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق پیرس کے لوگوں نے ٹینک دیکھ کر خوشی سے جھومے اور کہنے لگے ’کہ فرانسیسی آرہے ہیں اور وہ یہاں ہیں۔‘
تین مزید دستے اگلی صبح پہنچ گئے اور مزاحمت کار سائیکلوں پر سوار فرانسیسی فوجیں کے ساتھ ساتھ تھے۔ جنرل فلپ لوک لے صبح 9 بجکر 45 منٹ پر شہر میں داخل ہوگیا۔

فرانس کا جھنڈا 1500 دن کے بعد نازی سواستیکا کی جگہ ایفل ٹاور پر دوبارہ لگا دیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

اگلے دن دوپہر تک فرانس کا جھنڈا 1500 دن کے بعد نازی سواستیکا کی جگہ ایفل ٹاور پر دوبارہ لگا دیا گیا۔ جرمنی کے فوجی اپنے خفیہ ٹھکانوں سے ہاتھ اٹھا کر باہر آنے لگے ۔
میرس میں وون کولٹٹز نے دو بج کر 30 منٹ پر ہتھیا ر ڈال دیے۔ انہوں نے ہٹلر کے شہر کے یادگاروں اور پلوں کو اڑانے کے احکامات ماننے سے انکار کیا تھا۔
دوسری طرف فرانس کے نقصانات اتنے بڑے آپریشن میں نہ ہونے کے برابر تھے۔ تقریباً ایک ہزار مزاحمت کار، 6 سو سویلین اور 156 فرانسیسی فوجی مارے گئے۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی کے 3 ہزار دو سو فوجی مار گئے۔
ڈیگال دوپہر کو پیرس پہنچ گیا اور ٹاؤن ہال کی طرف روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے اپنا مشہور زمانہ خطاب کیا۔
26 اگست کو ڈیگال جنرل لوک لے اور دوسرے فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لاگوں نے ان کا استقبال کیے۔
جرمنی کو مکمل ہتھیار ڈالنے میں مزید نو ماہ لگ گئے جس کے بعد مئی 1945 میں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔

شیئر: