Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قربانی کے بکرے کی کہانی، بکرے کی زبانی

آج عیدالضحٰی کا پہلا دن ہے ، اور میری زندگی کا آخری دن ہے اور اب سے کچھ ہی لمحوں بعد میں قربان کر دیا جاؤں گا۔
یوں تو میری عمر کوئی بہت لمبی نہیں ہے صرف تیرہ ماہ کا جوان ہوں ۔۔ جی ہاں ہمارے ہاں جوانی ذرا جلدی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ بڑھاپا اگر نصیب ہو تو وہ بھی اتنا ہی جلدی آتا ہے اس لیے میری 13 ماہ کی عمر کو جوانی ہی سمجھا جائے۔
میری پیدائش ضلع ہری پور کی تحصیل خان پور کے ایک گاوں نگر میں واقع چاچا خان محمد کے باڑے میں ہوئی۔

عید الاضحیٰ کے موقع پر مسلمان جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ فوٹو اردو نیوز

 چاچا خان محمد کہتے ہیں کہ میری نسل بہت شریف النفس ہے اور میرے خاندان کے بکرے بالکل بھی جھگڑا لو نہیں ہوتے۔ اسی لیے انہوں نے میرا نام ’بھولا‘ رکھا۔
حالانکہ میں اتنا بھی بھولا نہیں تھا، کافی باتیں سمجھتا تھا۔
لیکن ہمارے جھگڑا کرنے کی نو بت ہی نہیں آتی۔ کیونکہ چاچی چاچے کی لڑائی ہی ختم نہیں ہوتی تھی۔
کبھی آٹا ختم ہو جاتا تو کبھی چائے کی پتی یا چینی۔۔۔ چاچے کی خالی جیب ہی اکثر لڑائی کا باعث بنتی تھی۔
 چاچا نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو جن میں میرا ایک سگا بھائی اور دو خالہ زاد بھی شامل تھے، کھل، چوکر، چنے اور گھاس سے پالا ہے۔
گاؤں کے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ باتیں پرانے زمانے کی کرتے ہیں اور تگ و دو نئے دور کی کرتے نظر آتے ہیں۔ چاچی اکثر کہتی ہیں کہ ان کے زمانے بھوکے تھے لیکن لوگ بہت اچھے تھے مل جل کر گزارا کر لیتے تھے۔ اگر ایک گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو بھی ادھر ادھر سے لے کر بلا جھجھک کھا لیتا تھا لیکن کوئی کسی کا بھرم نہیں توڑتا تھا۔
سردیاں گزریں اور گرمیاں آئیں۔ قربانی کی عید کا تذکرہ بھی ہونے لگا۔ اتنا معلوم ہوا کہ ہمیں اپنا باڑہ چھوڑ کر کہیں جانا پڑے گا اور چاچا ہمیں بیچ دیں گے۔ قربان ہونا پڑے گا، یہ منڈی پہنچ کر گاہکوں کی زبانی معلوم ہوا۔ خیر کب تک خیر مناتے ، خود کو تیار کر ہی لیا۔
منڈی پہنچنے کا سفر بھی بڑا دلچسپ تھا۔ پہلے تو گاوں سے چلا چلا کر بڑی سڑک تک پہنچایا گیا۔ پھر ایک ٹرک میں ڈالا گیا۔ چاچے کی ٹرک والے سے بھی تکرار ہو گئی، شکر ہے کہ ہاتھاپائی نہیں ہوئی

عید کے موقع پر جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ فوٹو اردو نیوز

ٹرک والا فی بکرا کرایہ 800 روپے مانگ رہا تھا جبکہ چاچا 400 روپے پر بضد تھے۔ کرتے کراتے 500 روپے فی کس طے ہوا۔ چاچے کے بقول پچھلے سال انھوں نے 300 روپے دیے تھے۔ 
چاچا بار بار ڈالر اور تیل مہنگا ہونے کی بات کرتے ہیں اور اسی بہانے پچھلے کئی مہینوں سے کھل چوکر میں بھی کمی کر دی تھی کہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اب زیادہ مقدار میں خریدنا ان کے بس کی بات نہیں۔
خیر ٹرک کا سفر بھی کچھ خوشگوار نہیں تھا۔ دھکم پیل کے ساتھ ساتھ چوکیوں پر پولیس والے اکثر روک لیتے تھے لیکن چاچے نے کسی کو پھوٹی کوڑی نہیں دی۔ چاچے کو کسی نے نیٹ والا موبائل لے دیا ہے اور وہ کہتا ہے جس نے بھی زیادتی کی نیٹ پر چڑھا دوں گا۔ شاید فیس بک کی بات کرتا ہوگا، یا پھر عمران خان کی شروع کی گئی سیٹیزن پورٹل کی، جہاں سنا ہے کہ ہر شکایت سنی جاتی ہے۔
کچھ ہی گھنٹوں بعد ہم اسلام آباد پہنچے۔ چاچے نے سید پور کی مویشی منڈی کا انتخاب کیا۔ ہمیں گاہک دیکھنے کے لیے آنے لگے اور چاچا نے بھی ہماری قیتیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیں۔
چاچا خان محمد نے میری قیمت 60 ہزار روپے مقرر کی۔ میں دل ہی دل میں خوش بھی ہوا کہ میں منڈی کے مہنگے بکروں میں شامل ہوں۔ تھوڑی سی اکڑ بھی آگئی تھی لیکن چھری کا سوچ کر بس ڈر سا جاتا تھا۔
 
 
پھر عید سے دو دن پہلے ایک گاڑی والے صاحب آئے جن کے ہاتھ میں بڑا موبائل تھا، بٹنوں والی گاڑی کی چابی تھی اور چشمہ بھی پہنا ہوا تھا۔ منڈی کے حبس میں ان کو باقی سب سے زیادہ پسینہ بھی آ رہا تھا۔ چاچے نے مبلغ پچاس ہزار روپے میں مجھے ان کو فرخت کر دیا۔
صاحب مجھے پک اپ میں لدوا کر گھر لے آئے۔ آپس کی بات ہے میں گاؤں کے ماحول سے نکل کر اسلام آباد کے ممی ڈیڈی ماحول میں پہنچ کر خوش ہو گیا۔ بڑے سے لان میں باندھا گیا۔ صاف ستھرے رنگ برنگے کپڑے پہنے بچے مجھے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ کوئی مجھے ٹافی اور چاکلیٹ دے رہا تھا تو کوئی آئس کریم پیش کر رہا تھا۔
لیکن اس گھر کے لوگوں کی باتیں چاچے چاچی اور ان کے دوستوں سے بالکل مختلف تھیں جو مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آئیں۔ گھر کے مختلف افراد میں نئے اور پرانے پاکستان کو لے کر اکثر بحث و مباحثہ ہوجاتا اور پھر سب غصے سے اپنے اپنے موبائلوں پر کچھ نہ کچھ لکھنا شروع کر دیتے تھے۔
یہاں آنے والی عورتوں کی بات چیت بھی عید کے کپڑوں، جوتوں، مہندی، میک اپ اور جیولری سے آگے اگر نکلتی تو قربانی کا گوشت محفوظ کرنے کے طریقوں تک ہی محدود رہتی۔ میں اکثر سوچتا کہ قربانی کا گوشت اگر محفوظ ہی کرنا ہے تو پھر بار بار قربانی کا تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے۔
ذرا ٹھرییے،  سامنے سے صاحب کے ساتھ کوئی بندہ آ رہا ہے۔
ارے۔۔۔۔لگتا ہے یہ قصائی ہے۔۔۔ انہوں نے بلآخر ڈھونڈ ہی لیا۔
پتہ نہیں اس نے میری کھال اتارنی ہے یا اس سے پہلے صاحب کی کھال اتار چکا ہے۔
جو بھی ہو، اس کے ارادے مجھے فورا سے کاٹ ڈالنے کے ہیں۔۔۔
لیکن آپ لوگ میری آخری بات سنتے جائیں، اس سے پہلے کہ میں قربان ہوں۔
صاحب لوگو!  بکرے صدیوں سے قربان ہوتے رہے ہیں اور ہر سال ہوتے رہیں گے لیکن اگر اپنے گھروں اور معاشرے کا ماحول بہتر دیکھنا چاہتے ہو تو ایک بار انا کی قربانی دیکر دیکھو، لطف آئے گا۔ آپ کو اپنا گھر اور معاشرہ جنت لگنے لگا۔
قصائی میرے قریب آ رہا ہے۔ اس نے چھری بلند کر لی ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ بب بے بے بے بےبے بے بے۔۔۔۔

شیئر: