Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں تو صرف عید الفطر ہوتی ہے

عید کی نماز پڑھنے کے لئے جب میں گھر سے نکلا تو بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: سنو! تم رات بھر کی جاگی ہوئی ہو، ایسا کرو، تم سوجاؤ، دوپہر کا کھانا بنانے کی ضرورت نہیں ، میں بازار سے کچھ لیتا ہوا آؤں گا۔
بس یہی میری غلطی تھی جو بعد میں مجھے بڑی بھاری پڑی۔
نماز سے فارغ ہوکر جب میں دفتر پہنچا تو وسیع وعریض پارکنگ ایئر میں میری گاڑی کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں تھی۔ یہ کم وبیش 6 بجکر 40 منٹ کا عمل ہوگا۔ دفتر میں بھی ہو کا عالم تھا۔ 
 میں نے کمپیوٹر آن کیا اور کام شروع کردیا مگر ایک آدھ گھنٹہ گزرنے کے بعد مجھے چائے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں نے چائے والے بابو بنگالی کو تلاش کرنا شروع کردیا ۔کنٹین پہنچا تو دیکھا بتی بجھی ہوئی ہے او رالیکٹرک چولہا ٹھنڈا پڑا ہے۔ 
’’کوئی نہیں، لگتا ہے بابو کی آج چھٹی ہے، چلو بوفے سے ’’عدنی چائے‘‘ لے آتاہوں‘‘۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ 
آگے بڑھنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ عدنی چائے ہمارے ہاں دودھ پتی کو ہی کہتے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ عدنی چائے میں ادرک کا پاؤڈر شامل کیا جاتاہے۔ 

عدنی چائے ہمارے ہاں دودھ پتی کو ہی کہتے ہیں جس میں ادرک کا پاؤڈر شامل کیا جاتاہے

میں ٹہلتا ہوا جب قریبی بوفے پہنچا تو وہاں ہو کا عالم تھا۔ بقالے (جنرل اسٹور)کے سوا تمام دکانیں بند تھیں۔ اب چائے کی ٹھرک پوری کرنا اشد ضروری تھا سو میں نے پیکٹ میں تیار شدہ کافی کو بہترین متبادل سمجھ کر خرید لیا اور دفتر واپس آگیا۔ آتے ہی میں نے الیکٹرک چولہا جلایا اور کافی کا پاؤڈر کپ میں انڈیل دیا۔ چینی کے دو چمچ ڈال چکا تھا کہ مجھے باہر سےکسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔ میں نے مڑکر دیکھا تو میرے سامنے بابو بنگالی مٹک مٹک کر آتا ہوا دکھائی دیا۔ 
اس وقت مجھے بابو ، بابو دکھائی نہیں دے رہا تھا بلکہ اس کی شکل میں گرم گرم چائے نظر آرہی تھی۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو 11 بج رہے تھے۔ میں نے کہا: کہاں تھے، اتنی دیر سے کیوں آرہے ہو۔ 
اس نے مسکراتے ہوئے کہا: عید ہے صاحب۔ 
اچھا ، صرف تمہاری عید ہے، ہم یہاں صبح سے چائے کے بغیر بیٹھے ہوئے ہیں ہماری عید نہیں ہے۔ 
اب میں کنٹین سے نکل آیا اورچائے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر میں بابو گرم گرم چائے لے آیا۔ 
آپ کو یاد ہے نا کہ میں نےگھر سے نکلتے وقت بیوی کو کیا کہا تھا؟
 کم وبیش 2 بجکر40 منٹ پر جب دفتر سے نکلا تو بھوک خاصی چمک چکی تھی۔ اب میں سوچنے لگا کہ کیا کھایا جائے، عربی ریستوران سے کباب لیتے ہیں یا پھر مندی لی جائے یا پھر بخاری ریستوران سے ’’شوایہ‘‘ لوں؟۔ 

عربی کباب سعودی عرب میں شہریوں اور غیر ملکیوں میں خاصے مقبول ہیں

میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور الروضہ محلے میں کباب کے مشہور ریستوران کی طرف رخ کرلیا۔ میں اپنی دھن میں چلتا جارہا یہاں تک کہ ریستوران کے گیٹ تک پہنچ گیا۔ گاڑی سے اترا اور ریستوران میں داخل ہونے کے لئے دروازہ کھینچا، ارے یہ تو بند ہے!میں نے دائیں بائیں دیکھا تو پارکنگ ایئر بالکل خالی تھا۔ اب مجھے ہوش آیا اور حواس خمسہ مجتمع کرکے گاڑی پر بیٹھ گیا۔ 
میں اپنی دھن میں چلا جارہا تھا، اب خیال آیا کہ سڑکیں ویران ہیں اور دور دور تک آدم ہے نہ آدم ذات۔ میں دوسرے قریبی ریستوران کی طرف گیا۔ گاڑی اس کے دروازے کے سامنے کھڑی کی۔ اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ بھی بند ہے۔ چلو بھئی بخاری ریستوران تو ضرور کھلا ہوگا۔ شوایہ بھی اچھا ہوتا ہے یار۔ میں نے گاڑی بخاری ریستوران کی طرف موڑ دی۔ دروازے کے عین سامنے گاڑی کھڑی کی۔ وہاں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ گاڑی سے اترنے سے پہلے شیشے کے دروازے کے اندر دیکھنے کی کوشش کی۔ کوئی بھی نہیں تھا۔ ذرا غور کیا تو دروازے پر لاک لگا ہوا تھا۔ یار بخاری ریستوران بھی کوئی بند کرتا ہے۔ 
اب مجھے پریشانی ہونے لگی۔ بھوک مزید تیز ہوگئی اور اس کے ساتھ دستیاب آپشن پر غور کرنے لگا۔ میں نے دیکھا برگر کی دکان کھلی ہے۔ یار دوپہر کے کھانے میں کوئی برگر بھی کھاتا ہے۔ میں آگے بڑھ کیا۔ اب دو تین شاہراہوں کے چکر کاٹ لئے مگر کہیں کوئی ریستوران کھلا ہوا نہیں ملا۔ 
ابھی میں روضہ محلے میں ہی تھا کہ دور سے مجھے ایک یمنی ریستوران کھلا ہوا نظر آیا۔ میں فورا بریک لگائی اور گاڑی سے اتر کر اس میں چلا گیا۔ اندر دو ہنس مکھ یمنی لڑکے کھڑے ہوئے نظر آئے۔ 
میں نے سلام کرنے کے بعد ان سے کہا: ساری دنیا بند پڑی ہے، تم نے اپنا ریستوران کیوں کھلا رکھاہے؟
ان میں سے ایک نے جواب دیا: گھر میں بور بیٹھ کر کیا کریں گے، ہم نے سوچا چلو وقت ضائع کرنے کے لئے ریستوران کھول لیتے ہیں۔ 
چلو یہ تو بہت اچھا کیا مگر یہ بتاؤ، کھانے کےلئے کچھ ہے؟ 
اس نے دو تین ڈشوں کے نام بتادیئے۔ چاول اور شوایہ تو میں لے لیا مگر ساتھ میں کوئی سالن بھی لیا۔ 

عید کے دن جدہ کی سڑکیں ویران تھیں،  دور دور تک آدم تھا نہ آدم ذات

اسی کو غنیمت جان کر خوشی خوشی میں جب گھر پہنچا اور کھانا کھایا تو دل میں خود کو کوستا رہا اور کہتا رہا کہ کاش یمنی لڑکے ریستوران کھولنے کے بجائے گھر میں بور بیٹھے رہتے تو اچھا تھا۔ 
جدہ میں بلکہ سعودی عرب میں ایک ہی عید ہے اور وہ عید الفطر، عید الاضحی ہے تو عید مگر اسے عید کے طور پر کوئی نہیں مناتا۔ یہاں بیشتر لوگ عید الاضحی میں ادھر ادھر نکل جاتے ہیں اور جو ہماری طرح ادھر ہی رہ جاتے ہیں انہیں یمنی ریستوران سے کھانا کھانا پڑتا ہے۔

شیئر: