Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک پاکستان کے مسیحی اور ہندو ہیروز!

قیام پاکستان کے بعد جوگندرناتھ منڈل پاکستان کے پہلے وزیرقانون بن گئے۔
23مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں قرارداد لاہور پیش کی گئی ہے، اور اسی قرار داد کو ایک الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کے آغاز کا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔
اس جلسے میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ پہلی بار سامنے آیا تھا لیکن قابل ذکر بات یہ ہے اس جلسے میں صرف مسلمان رہنما شامل نہیں تھے بلکہ غیرمسلم رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے الگ وطن کے مطالبے کی حمایت کی تھی۔
ان رہنماؤں میں دیوان بہادر ستیا پرکاش سنگھا، آر اے گومسنڈ، ایف ای چوہدری، راج کماری امرت، چندو لال، سی ای گبون، الفریڈ پرشد اور ایس ایس البرٹ جیسے اہم نام شامل تھے۔ 

سیسل ایڈورڈ گبن

 سیسل ایڈورڈ گبن کا تعلق اینگلو انڈین مسیحی خاندان سے تھا اور وہ سنہ 1906 کو آلہ اباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کالج نینتال اور بعدازاں سینٹ ایڈمنڈز کالج شلونگ سے حاصل کی۔

قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل مئی 1947 میں سیسل ایڈورڈ گبن نے پاکستان کے قیام کی کھل کر حمایت کی۔ فوٹو بشکریہ قمر الزماں

سنہ 1938 کو وہ حیدر آباد دکن میں آل اںڈیا اینگلو انڈین ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے اور اسی دوران انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ وہ کانگریس کے سیاسی نظریات سے اختلاف بھی رکھتے تھے۔
انہوں نے سنہ 1941 میں انڈین سرکار کے محکہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور ان کی تعیناتی پنجاب میں ہوئی، سنہ 1946 کے انتخابات میں وہ اینگلو انڈینز کی نشست پر قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 
اس موقع پر وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر خضر حیات ٹوانہ کے پارلیمانی سیکریٹری کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے تھے۔
قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل مئی 1947 میں سیسل ایڈورڈ گبن نے پاکستان کے قیام کی کھل کر حمایت کی جس پر انہیں کانگریس اور انیگلو انڈین ایسوسی ایشن سے نکال دیا گیا۔ اسی سال اگست میں انہوں نے اینگلو پاکستان ایسوسی ایڈیشن کی بنیاد ڈالی اور اس کا دفتر لاہور کی جیل روڈ پر قائم کیا۔
تحریک پاکستان میں سیسل ایڈورڈ گبن کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔ ان کا شمار ان تین ارکان اسمبلی میں ہوتا ہے جنہوں نے 23 جون 1947 کو پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا، دیگر دو ارکان اسمبلی ایس پی سنگھا اور جوشوا فضل الہی تھے۔
قیام پاکستان کے بعد سی ای گبن پنجاب کی پہلی اور دوسری اسبملی کے رکن رہے۔ جون 1955 کو قومی اسمبلی کے غیر مسلموں کے لیے مختص واحد نشست بھی ان کے نام رہی۔ اسی سال اگست میں انہیں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر منتخب کیا گیا تھا اور اکتوبر 1958 تک وہ بطور ڈپٹی سپیکر ذمہ داری نبھاتے رہے تھے۔
سنہ 2013 کی قومی اسمبلی میں سپیکرز اور ڈپٹی سپیکرز کی تصاویر میں ان کی تصاویر شامل نہیں تھی تاہم مسیحی رکن اسمبلی آسیہ ناصر کی جانب سے توجہ دلانے کے بعد نیشنل اسمبلی سیکریٹریٹ گیلری میں ان کی تصویر بھی نصب کر دی گئی۔

جوگندر ناتھ منڈل

جوگندر ناتھ منڈل کا تعلق بنگال سے تھا، وہ سنہ 1904 کو بنگال کے ضلع بریسال میں ایک شودر خاندان میں پیدا ہوئے۔  وہ سنہ 1937 کے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر بکھر گنج کے حلقے سے بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
جوگندر ناتھ منڈل اس وقت سوبھاش چندر بوس اور سرت چندر بوس دونوں سے متاثر تھے۔ جب سوبھاش چندر بوس کو سنہ 1940 میں کانگریس سے نکال دیا گیا تو منڈل کا رجحان بھی مسلم لیگ کی جانب بڑھ گیا۔ 
انہوں نے بی آر امبیڈکر کے ساتھ مل کر بنگال میں شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کی بنیاد بھی ڈالی۔ جب سنہ 1946 میں بنگال میں فسادات پھوٹ پڑے تو انہوں نے مشرقی بنگال کا سفر کیا اور دلتوں کو تلقین کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کا حصہ نہ بنیں۔
ان کا ماننا تھا کہ کانگریس کے ہندو رہنما مسلم لیگ کے خلاف دلتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
اکتوبر 1946 کو مسلم لیگ نے جب عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کی تو محمد علی جناح کی جانب سے نامزد کیے گئے پانچ نمائندگان میں جوگندر ناتھ منڈل کا نام بھی شامل تھا۔
قیام پاکستان کے بعد جوگندرناتھ منڈل پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن بنے تھے اور نئے وطن میں انہیں پہلے وزیرقانون و محنت کا قلمدان سونپا گیا تھا۔ سنہ 1947 سے 1950 تک وہ کراچی میں رہے۔
سنہ 1950 میں وہ اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو استعفی دے کر واپس انڈیا منتقل ہوگئے۔ اپنے استعفے میں انہوں نے غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک برتے جانے کا ذکر کیا تھا۔

جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیئس

جسٹس کانیلیئس آٹھ مئی 1903 کو آگرہ میں ایک بااثر اینگلو انڈین مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔

پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ جسٹس اے آر کار نیلیئس کے ساتھ۔ فوٹو بشکریہ جواد ایس خواجہ

انہوں نے آلہ آباد یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ایل ایل بی سول لا میں کیا اور سنہ 1924 میں مذاہب کے قوانین کی تاریخ میں ایک بہترین مقالہ تحریر کیا تھا۔
اس کے بعد وہ ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر اسی تدریسی ادارے سے منسلک رہے اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ پر برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے سلوین کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1926 میں ایل ایل ایم قانون اور انصاف میں کرنے کے بعد انہوں انڈیا واپسی پر انڈین سول سروس کا امتحاب بھی پاس کیا اور پنجاب کے محکمہ قانون میں ملازمت اختیار کی۔
سنہ 1943 تک وہ اسسٹنٹ کمشنر اور سیشن جج کے طور پر خدمات سرانجام دیتے تھے۔ سنہ 1946 میں انہیں لاہور ہائی کوٹ کے بینچ میں شامل کیا گیا تھا۔
تحریک پاکستان کے مسیحی رہنماؤں میں جسٹس کارنیلیئس اہم نام ہیں اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
انہیں ایک بے باک مقرر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی ہمیشہ کھل کر حمایت کی تھی۔ کچھ مسلم رہنما انڈیا کی تقسیم کے خلاف تھے جن میں مولانا عبدالکلام آزاد پیش پیش تھے تاہم جسٹس کارنیلیئس کا ماننا تھا کہ برطانوی راج اور کانگریس کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے چھٹکارے کا واحد حل ایک الگ مسلم ریاست کا قیام ہی ہے۔
انہوں نے قرارداد پاکستان کی تیاری  میں محمد علی جناح کو قانون رہنمائی بھی فراہم کی تھی۔ پنجاب حکومت میں قانونی عہدہ رکھنے کے باعث وہ تحریک کا اہم حصہ تھے اسی لیے قیام پاکستان کے وقت انہوں نے پاکستانی شہریت قبول کی اور نئے بننے والے ملک میں بھی انہوں نے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے ہمراہ وفاق میں قانونی ذمہ داریاں نبھائیں۔
سنہ 1960 میں انہیں چیف جسٹس آف پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔

دیوان بہادر ایس پی سنگھا

ایس پی سنگھا کا شمار تحریک پاکستان کے اہم ترین مسیحی رہنماؤں میں ہوتا ہے، وہ سنہ 1893 کو پسرور، ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔

مئی 2016 کو حکومت پاکستان نے دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی تحریک پاکستان میں خدمات پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

اعلیٰ تعلیم کے لاہور منتقل ہوئے یہیں سے اپنے پروفیشنل کریئر کا آغاز کیا، وہ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی رہے۔ تعلیم کے شعبے میں اعلیٰ خدمات کے عوض انہیں ’دیوان بہادر‘ کا خطاب دیا گیا۔
وہ انڈیا میں مسیحیوں اور دلتوں کی حالت زار سے نالاں تھے اور ان کے خیال میں مسلم معاشرے میں وہ ذات پات اور چھوت چھات سے آزاد زندگی زیادہ بہتر طور پر گزار سکتے تھے۔
21 نومبر سنہ 1942 کو انہوں نے بطور رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی قائداعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی اور انہیں قیام پاکستان کی حمایت کا یقین دلایا۔
فورمن کریسچیئن کالج لاہور کے طالب علموں اور اساتذہ نے بھی اتحاد کا یقین دلایا۔ بعدازاں انہوں نے تمام مسیحی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں قیام پاکستان کی بھرپور حمایت کی گئی تھی۔
سنہ 1946 کے انتخابات میں آل انڈیا کرسچیئن ایسوسی ایشن اور آل انڈیا کرسچیئن لیگ نے پہلی بار ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے اور ایس پی سنگھا پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔  یونینسٹ پارٹی کی حمایت سے وہ متحدہ پنجاب کی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے۔ 23 جون 1947 کو ہونے والے انتخابات میں انہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا، اس طرح 88 کے مقابلے میں 91 ووٹوں سے پاکستان کے حق میں فیصلہ ہوا۔
تاہم قیام پاکستان کے بعد پنجاب اسمبلی میں مذہب کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اور وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ان کا انتقال 22 اکتوبر 1948 کو ہوا۔ ان کی بیوی اور بیٹی نے سنہ 1958 میں ملک چھوڑ دیا اور انڈیا منتقل ہوگئیں۔
چند برس قبل مئی 2016 کو حکومت پاکستان کی جانب سے دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی تحریک پاکستان میں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا ۔

شیئر: