Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلامتی کونسل میں کیا کچھ ہو سکتا ہے؟

کشمیر کی آئینی حثیت تبدیل ہونے کے بعد سے یہاں کرفیو لگا ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حثیت تبدیل کیے جانے کے بعد کشمیر کے معاملے پر طویل عرصے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بات ہونے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے طلب کیا جانے والا اجلاس آج یعنی جمعے کی شام سات بجے منعقد ہو رہا ہے۔ تاہم اس وقت کئی سوال گردش میں ہیں جن کے جواب بہت اہم ہوں گے۔
اس حوالے سے جب ’اردو نیوز‘ نے سابق سفارت کار علی سرور نقوی سے پوچھا کہ کیا پاکستان کا ہوم ورک مکمل ہے، کچھ جلد بازی تو نہیں کی گئی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اجلاس بلانے کے حوالے سے جلد بازی نہیں کی گئی بلکہ اس وقت یہ ضروری تھا۔
اجلاس کی نوعیت کے حوالے سے علی سرور نقوی نے بتایا کہ یہ ایک مشاورتی اجلاس ہو گا جو کسی بھی رسمی اجلاس سے قبل بلایا جاتا ہے۔ اس میں 15 ممالک کے نمائندے شریک ہوتے ہیں اور یہ بند کمرے میں ہوتا ہے، اس میں کشمیر کے معاملے کو دیکھنے والے یونائیٹڈ کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان اور مبصر گروپ کی رپورٹ بھی دی جائے گی اور اس کے بعد رسمی اجلاس کا فیصلہ ہوگا۔ اگر وہ اجلاس بلا لیا جاتا ہے تو اس میں قرارداد آ سکتی ہے، دونوں ممالک کو مختلف اقدامات کی ہدایت کی جا سکتی ہے، وائسرائے مقرر کیا جا سکتا ہے۔
اسی سوال کے جواب میں سابق سفارت کار ظفر ہلالی نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ مشاورتی اجلاس میں شرکت کرنے والے 15 میں سے نو ارکان کی حمایت کے بعد ہی رسمی اجلاس بلایا جا سکے گا۔
ظفر ہلالی اس اجلاس سے کچھ زیادہ پرامید نہیں، ان کا کہنا تھا اگر چین اور روس پاکستان کے ساتھ ہیں بھی تو امریکا فرانس وغیرہ دوسری طرف کھڑے ہیں۔


مشاورتی اجلاس میں شرکت کرنے والے 15 میں سے نو ارکان کی حمایت کے بعد ہی رسمی اجلاس بلایا جا سکے گا۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر اس اجلاس سے بھی کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر کون سا راستہ بچے گا؟ تو ظفر ہلالی نے کہا کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں لیکن پھر لامحالہ صورت حال پراکسی وار یا پھر براہ راست جنگ کی طرف جائے گی۔
اگر مشاورتی اجلاس میں رسمی اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ ہوا تو پھر؟ اس کے جواب میں علی سرور نقوی نے کہا کہ بالفرض ایسا ہوتا ہے تو بھی یہ پاکستان کے حق میں جائے گا کیونکہ اس سے کشمیر ایشو دنیا میں بہت زیادہ اجاگر ہو جائے گا۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی حمایت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ چین اور روس کے علاوہ کچھ غیر مستقل ارکان کی حمایت بھی پاکستان کے ساتھ ہے تاہم فرانس، امریکہ اور برطانیہ کا طرز عمل کچھ مختلف نظر آ رہا ہے۔
اس سوال کہ اگر مشاورتی کے بعد رسمی اجلاس بھی بلا لیا جاتا ہے اور مسئلے کے حل کی کچھ امید بندھتی بھی ہے ایسے میں متذکرہ ممالک میں سے کوئی ایک ویٹو پاور استعمال کر لیتا ہے تو سب کچھ رائیگاں چلا جائے گا؟ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رولز کی حد تک تو ایسا ہی نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ایسی صورت حال کا فائدہ بہرحال پاکستانی موقف کو پہنچے گا کیونکہ اس کے بعد یہ معاملہ دنیا بھر میں اور زیادہ مباحث میں آئے گا اور ظاہر ہے پاکستان اپنے موقف پر بات کرتا رہے گا یوں یہ معاملہ خبروں میں رہے گا جس کا فائدہ آگے جا کر پاکستان کو ہی ہو گا۔

مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ


پاکستانی حکام کے مطابق چین اور روس کے علاوہ کچھ غیر مستقل ارکان کی حمایت بھی پاکستان کے ساتھ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کشمیر کا مسئلہ کم و بیش اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان اور انڈیا کا قیام، 1947 میں دونوں ممالک آزاد ہوئے تو کشمیر کا مسئلہ موجود تھا دسمبر 1947 میں اس پر پہلی بار جنگ ہوئی، جس پر انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گئے اور اقوام متحدہ کی جانب سے یونائیٹڈ کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان بنایا گیا۔
اپریل 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد پاس کی، جس میں دونوں ممالک کو فائربندی کی ہدایت کی گئی اور فوجیں نکالنے کا کہا گیا ساتھ ہی استصواب کرانے کا بھی کہا گیا۔
فائر بندی کا عمل مکمل ہوتے ہوتے کئی ماہ لے گیا اور یکم جنوری 1949 کو اس حوالے سے ہونے والے معاہدے پر دستخط ہوئے لیکن دونوں ممالک فوجیں نکالنے کے معاملے پر متفق نہ ہوئے۔
دسمبر 1949 میں اقوام متحدہ کی جانب سے ایک بار پھر دونوں ملکوں سے رابطہ کیا گیا اور فوجیں واپس بلانے کا کہا گیا۔
کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات نہ پنپ سکے اور دونوں جانب سے کشمیر پر اپنا حق جتانے کا سلسلہ جاری رہا، اس دوران دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوتے ہوتے جنگوں تک بھی گئے پاکستان سمیت کئی ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درامد کا مطالبہ کرتے رہے اور مختلف اوقات میں اقوام متحدہ کی جانب سے بھی مسئلے کے حل کی کوشش ہوتی رہی۔
1951 میں اقوام متحدہ کی ایک اور قرارداد منظور ہوئی جس کی روشنی میں دونوں ملکوں کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم ہوا۔
اسی طرح 71 کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان 1972 میں شملہ معاہدہ ہوا اور لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ بھی کام کر رہا ہے۔
تاہم اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ کا موقف رہا ہے کہ مبصر گروپ کو لائن آف کنٹرول پر انڈیا کی جانب کام نہیں کرنے دیا جاتا جبکہ پاکستان کی طرف وہ پوری طرح متحرک ہے، پاکستان کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آتا رہا ہے کہ مبصر گروپ کو انڈیا کی جانب بھی آزادی سے کام کرنے دیا جائے اور رپورٹ بنانے دی جائے۔
علاوہ ازیں ریڈیو پاکستان کے مطابق سلامتی کونسل میں آخری بار بات 1998 میں ہوئی، اس وقت پاکستان نے انڈیا کے دھماکوں کے جواب میں جوہری تجربات کیے تھے جس پر اقوام متحدہ کی قرارداد 1172 پر بحث ہوئی جس میں مسئلہ کشمیر بھی زیربحث آیا تھا۔

شیئر: