Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمڑے کی صنعت کو عید قرباں بھی نہ بچا سکی

رواں سال 64 لاکھ جبکہ گذشتہ برس 80 لاکھ جانوروں کی قربانی کی گئی تھی، فوٹو اردو نیوز
پاکستان چمڑے سے بھاری زرمبادلہ کمانے والے ملکوں کی فہرست میں شامل رہا ہے لیکن اب بتدریج پاکستانی چمڑے کی صنعت سکڑ رہی ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ عید قربان پر لاکھوں جانوروں کی قربانی سے حاصل ہونے والی کھالیں اس صنعت کو ہر سال سہارا دیتی ہیں، کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن اب کی بار حالات ویسے نہیں۔
صرف اسی سال نہیں بلکہ گذشتہ کئی برسوں سے یہ صنعت تنزلی کا شکار ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس سال کی خاص بات یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق جانوروں کی کھالوں میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی ہے۔ پاکستان میں چمڑے کی صنعت سے وابستہ تنظیم پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کو چاروں صوبوں کے محکمہ لائیو سٹاک سے دستیاب ڈیٹا کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس سال قربانی بھی پچیس فیصد کم ہوئی ہے۔

 ایک تاجر کے مطابق گائے کی کھال اس سال 900 روپے تک خریدی گئی جو ویسے اٹھارہ سو سے دوہزار روپے کی ہوتی ہے، فوٹو اردو نیوز

قربانی کم ہوئی یا کھالیں کم اکھٹی ہوئیں؟

بظاہر تو دونوں باتیں ہی درست معلوم ہوتی ہیں اور اس بات کو جانچنے کے لیے اگر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں لائے جانے والے قربانی کے جانوروں کا حساب لگائیں تو پنجاب کے محکہ لائیو سٹاک کے مطابق گذشتہ سال قربانی کے چودہ لاکھ  جانور لاہور شہر میں لائے گئے جبکہ اس سال یہ تعداد گیارہ لاکھ کے قریب ہے۔
پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے سربراہ آغا صلاح الدین کے مطابق لوگوں کی قوت خرید میں اس سال واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس بات کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ کیسے لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔
’ایک تو ہمیں جو اعداد و شمار ملے ہیں ان کے مطابق رواں سال ملک بھر میں چونسٹھ لاکھ جانور قربان ہوئے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد اسی لاکھ  تھی۔ اس میں بھی اگر مزید اس تعداد کو پرکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ گذشتہ سال گائے کی قربانی تیس لاکھ تھی اور رواں سال اس میں صرف پانچ لاکھ کمی ہوئی اور یہ  پچیس لاکھ ہے۔ گذشتہ برس بکرے کی قربانی پچاس لاکھ سے زیادہ تھی جو اس سال پینتیس لاکھ تک آ گئی۔‘
اس بات کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے بکرے خریدنے کے بجائے بارہ ہزار روپے سے بڑی قربانی میں حصہ ڈالنا زیادہ مناسب سمجھا۔

آغا صلاح الدین کے مطابق  کیمیکل اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ چمڑے کے تاجر پڑی کھال کو سوچ سمجھ کر ہاتھ لگاتے ہیں، فوٹو اردو نیوز

ان کا کہنا تھا کہ سیدھی سی بات ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں واضح کمی نظر آرہی ہے۔ آغا صلاح الدین کے مطابق ایک طرف تو اس سال قربانی میں واضح کمی ہوئی، دوسری طرف کھالیں اس سے بھی بہت کم اکھٹی ہوئیں اور اس کی وجہ موسم ہے۔ کراچی میں کھالیں بہت خراب ہوئیں کیونکہ بارش کی وجہ سے جانور گیلے رہے اور اس کے بعد بھی بارش اور دھوپ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کھالیں خراب ہوئیں۔
اہم بات یہ ہے کہ کھالیں کم اکھٹی ہونے کے باوجود اس سال کھالوں کی قیمت انتہائی کم تھی۔ لاہور کی چمڑا منڈی کے ایک تاجر محمد احمد کے مطابق گائے کی کھال اس سال نو سو روپے تک خریدی گئی جو ویسے اٹھارہ سو سے دو ہزار روپے کی ہوتی ہے۔ اسی طرح بکرے کی کھال ڈیڑھ سے دو سو روپے جبکہ بھیڑ کی کھال پچیس سے تیس روپے تک فروخت ہوتی رہی۔

چمڑے کے کاروبار میں مندی

لاہور کی چمڑا منڈی کے تاجر محمد احمد کے مطابق کاروبار میں بہت مندی چل رہی ہے۔ ’آگے بڑی کمپنیوں کے آرڈرز مل نہیں رہے اس لیے کھالوں کا وہ بھاؤ نہیں ہے جو پہلے ہوتا تھا۔ ہم پرانے ریٹ پر خریدیں گے تو خرچہ بھی پورا نہیں ہو گا۔‘
قربانی کی کھال ہو یا روزمرہ کے جانور کے جسم سے الگ کی گئی کھال اس کو قابل استعمال چمڑے میں تبدیل کرنے کے تین مراحل ہوتے ہیں جو اس کی قیمت کا تعین کرتے ہیں۔ ایک مرحلہ کھال خود ہوتی ہے، دوسرا مرحلہ اس کھال پر استعمال ہونے والا کیمیکل اور تیسرا اس عمل پر اٹھنے والی مزدوری کا خرچہ۔
چیئرمین ٹینرز ایسوسی ایشن آغا صلاح الدین کے مطابق پہلے ان تین حصوں میں کھال بذات خود مہنگی ہوتی تھی، کیمیکل اور مزدوری کا خرچہ کم ہوتا تھا لیکن اب کیمیکل اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ چمڑے کے تاجر پڑی کھال کو سوچ سمجھ کر ہاتھ لگاتے ہیں۔

2018-2019 کے دوران 844 ملین ڈالرز مالیت کے چمڑے کی مصنوعات برآمد کی گئیں جو گذشتہ سال سے 11 فیصد کم ہیں، فوٹو اردو نیوز

ان کا کہنا تھا ’عام طور پر کیمیکل لگانے کے بعد قربانی کی اکھٹی کی گئی کھالوں میں سے چالیس فیصد کھالیں استعمال کے قابل نکلتی ہیں۔ اب حکومت نے برآمدی ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز بڑھانے کے ساتھ ساتھ کیمیکل پر برآمدی ڈیوٹی اتنی کر دی ہے کہ سارا سائیکل ہی متاثر ہو چکا ہے۔‘
آغا صلاح الدین نے بتایا کہ کھالیں اکھٹا کرنے کے عمل سے ہی گڑ بڑ ہو جاتی ہے انہیں بین الاقوامی معیار کے چمڑے میں ڈھالنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ساٹھ فیصد چمڑے کی فیکٹریاں جن کو ٹینریز کہتے ہیں بند ہو چکی ہیں اور یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس شعبے پر توجہ دے ورنہ یہ اور بدحال ہو جائے گا۔  ’ابھی بھی پاکستان کا چمڑا اٹلی کے بعد دوسرے نمبر پر مانا جاتا ہے۔‘
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2019-2018 کے دوران چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات 844 ملین ڈالرز ہوئیں جو کہ گذشتہ مالی سال کے 948 ملین ڈالرز کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہیں۔ ماہرین معاشیات کے مطابق آنے والے برسوں میں اس میں مزید کمی آئے گی۔

مصنوعی چمڑا بین الاقوامی چیلنج:

پاکستان میں جہاں چمڑے کی صنعت کو علاقائی مسائل کا سامنا ہے تو وہاں بین الاقوامی سطح پر بھی مجموعی طور پر یہ صنعت زوال پذیر ہے اور اس کی بڑی وجہ مصنوعی چمڑے کا استعمال ہے۔ چیئرمین پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن آغا صلاح الدین کے مطابق بین الاقوامی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور بین الاقوامی افق پرنئی قوتیں نمودار ہو چکی ہیں۔

 اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس کی نسبت اس سال قربانی پچیس فیصد کم ہوئی، فوٹو اردو نیوز

’ہم نے پہلے جانوروں کے حقوق سے متعلق سبزی خوروں کی اصطلاح سنی تھی جو گوشت نہیں کھاتے، اب ایک نئی اصطلاح ’ویگنز‘ مطلب ’مکمل سبزی خور‘ عام ہے جو گوشت نہ کھانے کے ساتھ ساتھ جانوروں کے کسی بھی حصے خاص طور پر چمڑے سے بنی مصنوعات بھی استعمال نہیں کرتے۔
’جو کمپنیاں مصنوعی چمڑے کا کاروبار کر رہی ہیں وہ ایسی این جی اوز اور لوگوں پر بہت پیسہ استعمال کر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اب مصنوعی چمڑے کو استعمال کر رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق پہلے اصل چمڑے کی جو جیکٹ ساٹھ ڈالرز میں برآمد ہوتی تھی اب صرف بائیس ڈالرز میں برآمد ہو رہی ہے۔ مجموعی طور پر اس ساری صورت حال میں پاکستان کی زرمبادلہ کی تگڑی صنعت تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔

شیئر: