Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پہلے ہم متاثرین تھے، اب مسافر بھی ہو گئے‘

خیال زمان کے بھائی اور بھتیجے کو دہشت گردوں نے 2012 میں مار دیا تھا۔ فوٹو اردو نیوز
وہ 2012 کا ایک دن تھا، میں پڑھا لکھا نہیں تو مجھے تاریخ کا بھی پتہ نہیں، لیکن اس دن بھی گاؤں میں خوف کا سماں تھا، ڈر ہمیشہ لگا ہوتا تھا کہ کہیں کچھ ہونہ جائے اور اسی دن میرے بھائی اور بھانجے کو شام کے وقت مار دیا گیا، معلوم نہیں کس نے مارا لیکن ان دنوں دہشت گردوں کا بہت خوف تھا۔
یہ الفاظ شمالی وزیرستان کے علاقے لواڑہ منڈے کے فقیر زمان کے ہیں، جو دہشت گردی کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ان رشتہ داروں کو یاد کر کے آنسو بہا رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں۔

2017 میں دنیا بھر میں 10 ہزار 900 دہشت گرد حملوں میں 26 ہزار 400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی یاد میں عالمی دن اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 21 اگست کو منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پردنیا بھر میں دہشت گردی کے متاثرین کی مشکلات کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی سطح پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
امریکہ کی اعلٰی سطح کی درسگاہ ’یونیورسٹی آف میری لینڈ‘ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا مں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں اور صرف 2017 میں دنیا بھر میں 10900 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 26400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان کے محکمہ اطلاعت کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور پاکستان کو 123 بلین ڈالرز کا مالی نقصان ہوا ہے۔ کچھ دیگر ذرائع کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی سے مرنے والے افراد کی تعداد 60 ہزار سے زائد ہے۔
فقیرزمان کا خاندان بھی ان ہزاروں پاکستانی خاندانوں میں سے ایک ہے، جو دہشت گردی سے شدید طور پر متاثر ہوئے اور 2012 میں اپنے گھرانے کے دو انتہائی اہم اراکین کھونے کے بعد انہیں 2014 میں اس وقت بے گھر ہونا پڑا جب پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن ضرب عضب آپریشن شروع کیا۔
اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کا تو پاکستان کے کافی علاقوں سے صفایا ہو گیا لیکن فقیر زمان اور ان کے خاندان سمیت ہزاروں افراد کی مشکلات آج بھی ختم نہیں ہوئیں، جو اپنے علاقوں میں دہشت گرد حملوں اور فوجی کاروائیوں کی وجہ سے بے گھر ہو گئے۔

خیال زمان کے مطابق حکومت نے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے وہ مطمئن ہوں۔ فوٹو اے ایف پی

فقیر زمان کا علاقہ سرحد کے بالکل قریب واقع ہے، وہ عارضی طور پر افغانستان کے علاقے صوبہ خوست گئے لیکن پھر واپس بنوں کے بکاخیل کیمپ آئے اور پھر وہاں سے اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو منتقل ہو گئے۔
بہارہ کہو میں فقیر زمان کے علاوہ بھی پاکستان کے شمال مغربی قبائلی اضلاع میں دہشت گردی سے متاثرہ سینکڑوں خاندان آ کر آباد ہوئے ہیں۔
فقیر زمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی وجہ سے نہ صرف انہیں بھائی اور بھانجے کا غم ملا بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے گھر بھی کھوئے اور مالی مشکلات کا شکار بھی ہوئے۔
’پہلے ہم دہشت گردی کے متاثرین تھے لیکن اب مسافر بھی ہوگئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں، کیونکہ اپنے گھر سے دور رہنا ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ حکومت کا بنیادی کام امن لانا تھا اور امن بحال ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

’حکومت نے دہشت گردی سے متاثرہ اور بے گھر ہونے والے افراد کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے ہم مطمئن ہوں۔
پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً دہشت گردی سے متاثرہ اور بے گھر افراد کے لیے امدادی پیکجز کا اعلان کیے تاہم ان متاثرین نے بارہا شکایات کی ہیں کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سکیورٹی امور کے ماہرعامر رانا نے اردو نیوز کو بتایا کہ حالیہ سالوں میں پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ تاہم متاثرین کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
’دہشت گردی کی وجہ سے قبائیلی اضلاع سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ ترلوگ اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ وہاں پربحالی کا کام بھی ہوا ہے لیکن اب بھی بہت کام کرنے کی ضروت ہے۔‘
عامر رانا کا کہنا تھا کہ صرف یاد کرنا اور خراج تحسین پیش کرنا کافی نہیں، ان متاثرین کی زندگی مکمل طور پرمعمول پر لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔

عامر رانا کا کہنا تھا کہ صرف یاد کرنا اور خراج تحسین پیش کرنا کافی نہیں، ان متاثرین کی زندگی مکمل طور پرمعمول پر لانے کی ضرورت ہے

صوبہ خیبر پختونخوا کے اطلاعات و نشریات کے وزیر شوکت یوسفزئی نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ ’وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سکیورٹی فورسز کے شہدا، دہشت گردی سے متاثرہ سویلینز اور قتل کیے گئے پولیو ورکرز کے خاندانوں کو امدادی پیکجز دیے ہیں۔ ’ہمارا بنیادی کام امن لانا تھا اورامن بحال ہوا ہے۔‘
حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ لیکن دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی مکمل بحالی اور ان کو سہولیات کو فراہمی کے لیے ابھی مزید وسائل اور وقت کی ضرورت ہے۔

شیئر: